دانش ....خالد ہاشمی
Khalidhashmi705@gmail.com
اخلاقی تربیت انسان کو عروج کی بلندیوں تک لے جا سکتی ہے۔اخلاقی تربیت کی ابتدا والدہ کی گود سے شروع ہو کر دیگر قریبی رشتوں کے درمیان پروان چڑھتی ہے۔ پہلے پہل بچوں کی تربیت پر خاص توجہ مرکوز رکھی جاتی تھی اور اسں امر کاخاص خیال رکھا جاتا تھا کہ بچے کی شخصیت اچھے اوصاف کی حامل بنے کہا جاتا ہے کہ اخلاقی ذمہ داری سب سے زیادہ بچے کے والدین پر عائد ہوتی ہے۔ اس کے بعداخلاقی تربیت کی ذمہ داری اسکول کے اساتذہ کی ہے، مگر جب تک اساتذہ اعلیٰ سیرت و کردار کا نمونہ نہ ہوں وہ شاگردوں کی اخلاقی تربیت نہیں کر سکتے۔نصابی کتب کے علاوہ بچوں کو مطالعہ کے لیے کتب بھی دینی چاہیئں تا ک ان کے مطالعہ سے بچوں میں اخلاقیات کا احساس پیدا ہو۔ ان میں دیگر علوم حاصل کرنے کا شوق اور اخلاقی عادات بھی پختگی پیدا ہو۔اخلاقیات کا سبق سیکھنے سب سے بہترین طریقہ ہمارے پیارے نبی کی سیرت پر عمل کرنا ہے۔ رسول کریم نے فرمایا:”تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو اخلاق میں بہتر ہوں ''۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہر دین کا ایک خلق ہوتا ہے اور اسلام کا خلق حیاہے۔ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضور نبی کریم کے خلقِ عظیم کی شان یوں بیان فرمائی ہے: ”بے شک آپ کو خلق عظیم عطا کیا گیا“۔بیشک ہمارے نبی کریم کی سیرت ہم مسلمانوں کے لیے سب سے بہترین تربیت ہے۔ اسلام میں مسلمان کی پہچان اخلاق سے ہی ہوتی ہے۔یہ ممکن نہیں کہ ایک مسلمان ایمان کا تو دعویٰ کرے، مگر اس میں اخلاق نہ ہو۔ ہمارے پیارے نبی کریم کائنات میں اخلاقیات کے ا علیٰ درجے پر فائز ہیں جس پر اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب تصدیق ثبت کر رہی ہے۔
آپ نے فرمایا: ”میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔“اخلاق اور احساس کا بہت گہراساتھ ہے۔ اعلیٰ اخلاق بہترین تربیت کو ظاہر کرتے ہیں ضروری ہے کہ والدین بچوں کو آ پ کی مہربانی آپ کا شکریہ اور معاف کرنے جیسے الفاظ سکھائیں۔ یہ الفاظ سماجی زندگی میں سہولتیں پیدا کرتے ہیں۔ انھیں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، استاد علم کا سمندر ہوتا ہے۔ قوموں کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ استاد کا منصب روحانی باپ کی طرح ہے اور اسے اپنے طلبہ کے ساتھ شفقت کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔۔ استاد کو چاہیے کہ طلبہ کی سمجھ اور شعور کے مطابق مناسب الفاظ میں خطاب کرے جسے وہ سمجھ سکیں۔ ورنہ وہ الجھن کا شکار ہوجائیں گے۔حضرت علیؓنے فرمایا: لوگوں کو وہی باتیں بتایا کرو جن کو وہ سمجھتے ہوں اور اس کی معرفت رکھتے ہوں اساتذہ کو چاہیے کہ طلبہ کے اذہان میں خوفِ خدا پیدا کریں۔تربیت کرنے والے کو بہت حکمت و عقل سے عمل کرنا چاہیے۔اسی میں معاشرے کی بہتری ہے