سانحہ 9 مئی حقیت یا افسانہ


بے نقاب  اورنگ زیب اعوان 

laghari768@gmail.com 

اقوام کی زندگی میں کچھ تاریخیں ان گنت نشانات چھوڑ جاتیں ہیں. جن کو چاہتے ہوئے بھی انسان بھول نہیں پاتا. کیونکہ ان سے اس کی تلخق اور شیریں یادیں وابستہ ہوتیں ہیں. سانحہ 9 مئی بھی پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا ہی واقع ہے. جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا. ایک سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود آج تک اس کی حقیقت کو شکوک و شہبات کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے. جن لوگوں کو اس سانحہ کی پاداش میں گرفتار کیا گیا ہے. وہ اعتراف جرم سے منحرف ہیں. جبکہ دوسری طرف ان لوگوں کو سزا دلوانے کے لیے ان کے سیاسی مخالفین دن رات ان کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں. کہ سانحہ 9 مءچند شر پسند عناصر کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے. 9 مئی کو شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی، دفاعی تنصیبات پر حملہ، ایک مائنڈ سیٹ کی عکاسی کرتا ہے. بالآخر 9 مئی کو صرف اور صرف فوجی و دفاعی تنصیبات پر ہی حملہ کیوں کیا گیا. کیا یہ حملہ آور ملک دشمن عناصر تھے. یا راہ راست سے بھٹکے ہوئے لوگ. ان کی ذہن سازی کس نے کی. کہ وہ ملک کے معتبر ترین ادارے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے. عوام کی کیثر تعداد نے بھی ان کا ساتھ دیا. دنیا بھر میں ان کے اس فعل سے ملک پاکستان کی بدنامی ہوئی. دوسری طرف عوام اور فوج کے درمیان موجود خلا کا بھی پتہ چلا. افواج پاکستان و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بروقت کاروائی کرتے ہوئے. شر پسند عناصر کی کیثر تعداد کو گرفتار کر لیا. جو ابھی تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں. ان کا واضح موقف ہے. کہ یہ سب کچھ ہم نے نہیں کیا. جبکہ کیمرے کی آنکھ نے وہ تمام مناظر ریکارڈ کیے ہیں. جن میں واضح طور پر ان کو دفاعی و فوجی تنصیبات پر لشکر کشی کرتے دیکھا جا سکتا ہے.. یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے. کہ یہ لوگ بلا روک ٹوک اپنے اپنے اہداف تک کیسے پہنچ گئے. ان مقامات کی سکیورٹی پر مامور اہلکار کدھر تھے. افواج پاکستان کو اپنی صفوں میں چھپی کالی بھیڑوں کو بھی تلاش کرنا چاہیے. جہنوں نے ان کی مدد کی. ظاہر ہے. گھر کے اندر سے کوئی نہ کوئی ان کی سہولت کاری کے فرائض ادا کر رہا تھا. بات محض 9 مءکی نہیں. ماضی میں بھی آپ کے لوگوں نے ان سے ایسے کام لیے ہیں. 2014 میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پر مسلح جھتوں کی طرف سے قومی اداروں قومی اسمبلی، سپریم کورٹ آف پاکستان، پاکستان ریڈیو اسٹیشن پر باقاعدہ قبضہ کیا. گیا. اور فون پر ایک دوسرے کو مبارک باد دی گئ. جس کا آڈیو ثبوت اس وقت کی حکومت نے عوام کے سامنے رکھا. مگر ہمارے بااثر اداروں کی پشت پناہی کی بدولت ان لوگوں کو کلین چٹ دی گئی. سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان کو بہادر، صادق و امین کے لقب سے نوازا. کیونکہ اس وقت ہدف پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کو کمزور کرنا تھا. شاید یہ سب کچھ کروانے والے یہ بھول گئے. کہ کسی ایک کو کمزور کرنے کے چکر میں وہ دوسرے کو اتنا طاقت ور کر رہے ہیں. جو کل کو ان کے گریبان کو بھی پڑ سکتا ہے. فیض آباد دھرنا بھی اس کا ایک سکرپٹ تھا. 9 مئی کو مکمل فلم چل گئی. جن کو ہمارے اداروں نے دوسروں کی تذلیل کے لیے تیار کیا تھا. وہ ان کے ہی گریبان کو پڑ گئے. ایک سال بعد واضح ثبوتوں کے باوجود ابھی تک وہ ان دہشت گردوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے. شاید ان کے دلوں میں ان کے لیے آج بھی محبت پائی جاتی ہے. عوام کو گمراہ کرنے میں ہمارے اداروں کا کلیدی کردار رہا ہے. یہ سوچے سمجھے بنا. کہ اس کے اثرات ملک و قوم پر کیا ہوگے. ہمارا ملک معاشی طور پر تنزلی کی دلدل میں دھنسا جا رہا ہے. اور ہم لوگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں. افواج پاکستان اپنے لوگوں کا اس لیے احتساب نہیں کر رہی. کہ اس طرح سے ان کے ادارے کی بدنامی ہوگی. مگر اب زبان زد عام ہے. کہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے. اس کے پیچھے وردی والے کچھ مفاد پرست عناصر کا ہاتھ ہے. جن کے اپنے ذاتی مفادات ہیں. وہ ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے منفی منصوبہ بندی کرتے ہیں. جس کا خمیازہ ملک و قوم کو بھگتنا پڑتا ہے. اگر سزا دینا مقصود ہی ہے. تو پہلے اپنی صفوں میں چھپی کالی بھیڑوں کو سزا دے. تاکہ عوام کو بھی احساس ہو سکے. کہ واقع ہی دہشت گردوں کے خلاف سنجیدہ کاروائی کی جا رہی ہے. اگر ایسا نہ کیا گیا. تو ملک میں 9 مئی جیسے واقعات جنم لیتے رہے گے. آزاد کشمیر میں آج مہنگائی کے نام پر ایسا ہی ہو رہا ہے. وہاں چند شر پسند عناصر معصوم عوام کو ورغلا پھسا کر ملکی اداروں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں. ان شرپسند عناصر کے قلع قمع کے لیے اداروں کو ان کی پشت پناہی سے باز رہنا چاہیے. یہ عناصر جن کی آبیاری ملکی ادارے خود کرتے ہیں. یہ اتنے طاقت ور ہو جاتے ہیں. کہ یہ اپنے پرائے کی تمیز کیے بغیر ہر کسی کے گلے پڑ جاتے ہیں. سقوط ڈھاکہ بھی اسی سلسلے کا ایک شاخسانہ تھا. وہاں بھی ہمارے اداروں کی مداخلت نے حالات کو اس قدر ابتر کر دیا تھا. کہ ملک کو دو لخت ہونے سے کوئی نہیں بچا سکا. افسوس ہم نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا. ہم آج بھی اسی روش پر چل رہے ہیں. عوام اور ملکی ادارے دونوں ہی اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مکمل طور پر ناکام نظر آ رہے ہیں. سب ایک دوسرے پر الزامات لگا کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی خود ساختہ کوشش کر رہے ہیں.مگر اپنی اصلاح کوئی نہیں کر رہا. سانحہ 9 مءمیں کتنی حقیقت ہے. اس کا ادراک سب کو ہے. جو بات غور طلب ہے. وہ ہے سہولت کاری. ہم کب تک اپنے ذاتی مفادات کی خاطر شر پسند عناصر کی حوصلہ افزائی کرتے رہے گے. ایک 9 مءگزرنے کے بعد ہم لوگ دوسرے سانحہ کے انتظار میں رہتے ہیں. کہ وہ کب وقوع پذیر ہوگا. ایسے ناخوشگوار واقعات کی روک تھام کے لیے ہمیں مل جل کر سنجیدہ جدوجہد کرنا ہوگی. خود کو مضبوط کرنے کے چکر میں ان شرپسند عناصر کی حوصلہ افزائی سے مکمل اجتناب کرنا ہوگا. عوام کو اس بات سے سروکار نہیں کہ 9 مءمیں کتنی حقیت ہے یا افسانہ. وہ تو یہ چاہتی ہے. کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سنجیدہ کوشش کی جائے. تاکہ آیندہ سے کوئی ایسا دل خراش واقع رونما نہ ہوسکے. اس کے لیے ملکی اداروں کو اپنی اپنی اصلاح کی ضرورت ہے. 9 مءتو گزر گیا. مگر ہمارے لیے ان گنت سوالات چھوڑ گیا ہے. جن کے جوابات ہم نے تلاش کرنے ہیں. آئے عہد کرے. کہ آئندہ ایسے دلخراش واقعات کی روک تھام کے لیے سب نے مل جل کر سنجیدہ کاوش کرنی ہے. اور اپنے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے کسی بھی شرپسند گروپ کی پشت پناہی ہرگز نہیں کرنی. یہ شر پسند عناصر کسی سے مخلص نہیں ہوتے. ان کا طاقت ور ہونا. ملک و قوم کی کمزوری ہے.

ای پیپر دی نیشن