کچھ عرصہ قبل خیبر پختون خواہ اپنے آبائی گاو¿ں بفہ جانے کا اتفاق ہوا۔بھتیجے احمد حسن خان اور بھتیجی عیشال خان نے سرسبز درختوں میں گھرے ہوئے بفہ میں پہنچ کر نہایت خوشی کا اظہار کیا۔ بچوں کو جہاں بفہ کا سہانا موسم بھایا وہیں صبح سویرے پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں سن کر احمد حسن خان کے لبوں پر اپنے بابا سےایک ہی سوال بار بار آ رہا تھا کہ " بابا اتنے پرندے لاہور میں کیوں نہیں ہوتے". چھوٹی عیشال خان کو بھی یہی تشویش تھی کہ آخر لاہور میں صبح صبح کوئل کی کوک کانوں میں رس کیوں نہیں گھولتی، بلبل نظر کیوں نہیں آتی، چڑیاں اتنی کم کیوں ہیں؟
بچوں کے مسلسل سوالوں کے جواب میں ان کے بابا اسرار خان نے انہیں بتایا کہ "بڑے شہروں میں درختوں کے مسلسل کٹنے اور شور کی آلودگی سے پرندے لوگوں سے ناراض ہو گئے ہیں"۔ اب بچے مسلسل پرندوں کو منانے ان کے لوٹ آنے کے لیے جتن کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
یہ واقعہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد ماحولیاتی تغیر بری طرح سے پرندوں پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سے پرندے روئے زمین سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ جس طرح کائنات میں موجود تمام مخلوقات کے وجود سے کائنات کا توازن قائم ہے اسی طرح مختلف اقسام کے پرندوں سے نہ صرف توازن قائم ہے بلکہ ان پرندوں کے دم سے روئے زمین حسین معلوم ہوتی ہے۔ زمین کے کسی بھی حصے پر تمام جانداروں (انسان‘ حیوان ‘پرندے‘نباتات) سب میں توازن ہونا بہت ضروری ہے۔کسی ایک جاندار کی عدم موجودگی کائنات کے توازن کو بگاڑ کر رکھ دے گی۔
پرندوں کا مسکن درخت ہوتے ہیں بڑے شہروں میں خصوصا اگر ہم لاہور کی بات کریں تو مسلسل درختوں کے کاٹنے سے یہ پرندے بے گھر ہو رہے ہیں۔
عجیب درد کا رشتہ تھا، سب کے سب روئے
شجر گرا تو پرندے تمام شب روئے
بے گھر ہونے سے پرندے سروائیو نہیں کر پاتے اور یوں ان کی نسلیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ مجھے یاد ہے میرے بچپن کا لاہور۔ اس کی شکل ہی کچھ اور تھی جسے باغوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ جہاں سر سبز درختوں کی چھاو¿ں سے ہم جون کی تپتی دوپہروں میں بھی لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ جہاں سہانی صبح چڑیوں کے چہچہانے کی آوازیں کانوں میں آتی تھیں، جہاں شام ڈھلنے کے قریب پرندوں کا اپنے گھونسلوں میں واپس آنے کا منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ مگر اب بقول شاعر :
اب تو چپ چاپ شام آتی ہے
پہلے چڑیوں کے شور ہوتے تھے
لیکن آج لاہور کی یہ حالت ہے کہ درختوں کی بے دریغ کٹائی تو ہوئی لیکن ان کی جگہ نئے درخت نہیں لگائے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج لاہور میں سموگ کی وجہ سے لوگوں کا جینا محال ہے۔
اسی طرح سے اگر ہم شور کی آلودگی کی بات کریں اور ماحولیاتی تغیر میں اس کا حصہ معلوم کرنے کی کوشش کریں تو ہمیں پتا چلے گا کہ شور کی آلودگی سے تحقیق کے مطابق پرندوں کی صحت اور تولیدی نظام پر نہایت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گاڑیوں اور ٹریفک کا شور پرندوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟؟؟
تو اس کا سیدھا سادہ حل موجود ہے۔اگر ہم اپنے ماحول میں پرندوں کی چہکار سننا چاہتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں۔ یہی درخت پرندوں کا مسکن بنیں گے، ان کی افزائش نسل ہوگی۔ اس کے علاوہ آج کل اکثر لوگ برڈز ہوم بنوا کر مختلف مقامات پر آویزاں کرتے ہیں جہاں پرندے اس کے اندر اپنا گھونسلا بنا کر رہتے ہیں جو نہ صرف انہیں موسموں کی شدت سے بچا کر رکھتے ہیں بلکہ وہاں پرندے زیادہ محفوظ ہوتے ہیں۔ ان پرندوں کو مسکن فراہم کر کے ان کی حفاظت کر کے ہم ماحول دوست ہونے کا ثبوت دے سکتے ہیں اور ان پرندوں کو معدوم ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
اسی طرح شور کی آلودگی پر قابو پا کر ہم پرندوں کو بچا سکتے ہیں۔ جہاں ٹریفک اور گاڑیوں کے شور سے پرندوں کو بچانا ہے وہیں تیز آواز میں موسیقی ، لاو¿ڈ سپیکر کا استعمال اور سب سے بڑھ کر زوردار آواز میں گفتگو بھی پرندوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ ان سب چیزوں پر قابو پا کر ہم اپنے ماحول کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان پرندوں کو بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
یہ ماحول ہمارے پاس آنے والی نسلوں کی امانت ہے۔ ہم نے اپنی آئندہ نسلوں کوصاف ستھرا اور فطری ماحول تفویض کرنا ہے۔
٭....٭....٭