بخدا جب تک مستقل احتساب کا قانون نہیں بنے گا۔ نیب تو معذرت کے ساتھ ”پل بار گین“ کے ذریعے کرپشن کو فرو غ دینے کا ادارہ ہے ۔ نیب قانون کے مطابق نہیں ”شخصیات“ کی خواہش کے مطابق چلتا ہے۔ صبح ایک آدمی کے بارے میں کرپشن کے ثبوت لا کر اُسے گرفتار کراتا ہے۔ اگلے دن جب ”موسم“ بدل جاتا ہے تو وہی ہی نیب عدالت میں بیان دے دیتا ہے کہ اگر اس آدمی کو ضمانت دے دی جائے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہم اس کی مخالفت نہیں کریں گے۔ بخدا جب تک کرپشن کا قانون پھانسی یا عمر قید نہیں بنے گا یہاں لوٹ مار کا بازار گرم رہے گا اور اگلے سینکڑوں سال بھی اس ملک کی غریب عوام کے حالات بد سے بد تر ہوں گے۔ مسئلہ یہاں یہ ہے کہ ہر ایک ذاتی مفادات کی دوڑ میں لگا ہے ملکی مفادات کی بات کوئی بھی نہیں کرتا۔ چند دن قبل کسانوں نے جب احتجاج کیا تو پولیس نے پھر حسبِ روایت اپنی ”کارکردگی“ کا مظاہرہ کیا۔ غریب کسان جن کا گھر ہی زراعت پر چلتا ہے۔ اُس کی فصل تباہ ہو رہی ہو۔ وہ کہاں جائے گا؟ کس سے فریاد کرے گا؟ بجائے اُس کو حوصلہ دیا جائے اُسے پولیس کے سامنے لاکھڑا کر دیا جاتا ہے۔ میرے معاشرے میں حکومت خود ظلم بھی ڈھاتی ہے اور پھر رونے بھی نہیں دیتی۔ عدلیہ جو قانون کی پاسداری اور عملداری کی ضامن ہے اُسے ایسے عوامی مسئلوں پر از خود نوٹس لینے میں ذرا بھی دیر نہیں کرنی چاہیے قانون عوام کے تحفظ کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ معزز جج صاحبان خود زیادہ بولتے ہیں اور فیصلے ”خاموش“ دکھائے دیتے ہیں حالانکہ بولنا فیصلوں کو چاہیے۔ اس ملک کی سلامتی اور عوام کی فلاح کا واحد حل بلاتفریق کڑا احتساب ہے۔ اس کے علاوہ سب محض باتیں ہیں۔ چند روز قبل وزیراعظم صاحب نے سعودیہ میں فرمایا کہ ”قرض ہمار ے لئے موت کا پھندا ہے“ سو فیصددرست ہے۔ جناب جب PDMخود قانون بنائے کہ ہر کسی کو پچاس کروڑ کی کرپشن معاف ہے۔ تو پھر؟ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا معاشرے میں وڈیرے کمزوروں کو خود قرضے دیتے ہیں۔ جب وہ مکمل قرضے کے نیچے دب جاتے ہیں تو پھر کمزوروں کے ساتھ جو ہوتا ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ آج آئی ایم ایف ہمیں خوشی سے ڈالرز کی قسطیں جاری کر رہا ہے۔ یہ واپس کون کرے گا؟ لوٹنے والے اپنا اپنا حصہ لے کر علیحدہ ہو جاتے ہیں اور عوام سے زبردستی بزور طاقت ٹیکسزز اور بھاری بھر بل وصول کئے جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ۶۷ سال میں چپڑاسی سے لے کر صدر تک ہر فرد اس ملک کو ”چونا“ لگا رہا ہے۔ اب دبئی لیکس میں پاکستانی اشرافیہ کی اربوں کی جائیدادیں دبئی میں سامنے آئی ہیں۔ دوسروں کو کہا جاتا ہے پیسہ پاکستان میں لے کر آﺅ۔ خود پیسہ باہر لے جا کر اربوں کی جائیدادیں بنائی جاتی ہیں۔ پھر ملک میں سیاسی استحکام کا خواب بھی دیکھتے ہیں۔ 76 سال سے انہوں نے ملک کو کھوکھلا کر رکھا ہے۔ ذرائع بھی نہیں بتاتے کہ یہ جائیدادیں کیسے بنتی ہیں؟ آج ہم پوری دنیا کے مقروض نہیں بلکہ غلام ہیں۔ ایران سے گیس پائپ لائن ہو۔ قبلہ اول میں شہادتوں کا مسئلہ ہو ہمیں ان کے بارے میں بات تک کرنے کی اجازت نہیں۔ ہر ادارے کو دوسرے کی فکر لاحق ہے۔ اپنا احتساب کوئی بھی کرنا نہیں چاہتا۔ ہماری آزادی، خود مختاری، سلامتی آج قرض کی وجہ سے سوالیہ نشان ہے؟ عہدوں کی بندر بانٹ لگی ہوئی ہے۔ مینڈک پانی سے باہر ٹیں ٹیں کرتے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کو حکومت سے باہر رہ کر عوام کی بہت فکرلاحق رہتی ہے۔ جب حکومت میں حصہ ملتا ہے تو نظر بھی نہیں آتے۔ بلاول زرداری ایک دوست کے بقول آج کل نظر بھی نہیں آتے تو بات یہ ہے ، اُن کے والد صاحب دوسری بار صدر بن گئے۔ سندھ میں حکومت کے علاوہ مرضی کے پارٹی کو عہدے مل گئے تو اب بلاول صاحب کس کے لئے اور کیوں بولیں گے؟ ملک لوٹنے والوں کا احتساب بلا تفریق ہو۔ بخدا آئی ایم ایف کو جب تک ہم ہمیشہ کے لئے خیر باد نہیں کہیں گے ، اس ملک کی ترقی اور سلامتی سوالیہ نشان رہے گی؟
غریب پِس رہا ہے۔ مر رہا ہے۔ کوئی ایک بھی تو اس کا پُرسان حال نہیں۔ نہ میڈیا عوامی مسائل کو پیش کرتا ہے نہ کوئی ادارہ عوام کی بات سنتا یا کرتا ہے۔ عوام اپنی مرضی کے لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ وہ بھی چوری ہو جاتے ہیں ۔ الیکشن کے علاوہ عوام کر بھی کیا سکتی ہے؟ جب ایک عام شہری خوشحال ہو تو پھر اُس ملک کو خوشحال کہاجاتا ہے،”اشرافیہ اور حکمران طبقہ “ خوشحال ہو اور عوام روٹی کو ترستی رہے؟ لوگ غربت افلاس کے ہاتھوں تنگ آ کر جس معاشرے میں بیوی بچوں کو ذبح کر دیں اور نہ کوئی حکومت اس با ت کا نوٹس لے اور نہ عدلیہ تو اس سے زیادہ بے حسی اور کیا ہو سکتی ہے؟
”غریبوں کا دنیا میں اللہ والی“ بچپن میں کسی کتاب میں یہ عنوان پڑھا تھا ابھی تک یاد ہے۔ نہیں معلوم کہ یہ کسی نظم کا مصرع ہے یا کوئی عنوان ہے؟ اگر کسی کو معلوم ہو تو ضرور راہنمائی فرمائے بہرحال یہ ایک حقیقت ہے، کبھی کبھی یہ خیال بھی آتا ہے کہ یہ ملک شاید بنا ہی صرف اشرافیہ اور حکمران طبقہ کے لئے تھا؟ وہ قانون سازی بھی صرف اور صرف اپنے مفادات کی کرتے ہیں۔ عوام کے مسائل کے لئے انہیں کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی؟