تاریخ کے زخم

May 18, 2024

سکندر خان بلوچ

گزشتہ سے پیوستہ: بحوالہ میرے کالمز مو¿رخہ 29اپریل اور6 مئی 2024ء۔ہم جب اپنی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک تکلیف دہ حقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ کہ ہندوستان پر مسلمانوں نے کم و پیش پانچ سو سال حکومت کی لیکن مسلمانوںکی معاشی حالت نہ بدل سکی۔ وہ مفلوک الحال ہی رہے۔ہمارے مقابلے میں سکھوں نے پنجاب پرصرف پچاس سال حکومت کی لیکن 1947ءمیں تقسیم ہند کے وقت سب سے بڑے زمیندار پنجاب میں سکھ تھے۔ مسلمان ان کے مزارع تھے ۔سمجھ نہیں آتی مسلمان دور ِحکومت میں مسلمانوں کی حالت کیوں نہ بدل سکی۔ ہندو شروع سے ہی دولتمند تھے۔ مسلمان دورِ حکومت میں بھی اچھے عہدوں پر ہندوہی فائز رہے۔ مغلوں نے تو زیادہ تر شادیاں بھی ہندوو¿ں میں کیں تو یوں ہندو ہر دور میں پھلتے پھولتے رہے۔ انگریز دور میں بھی ہندو سب سے زیادہ پسندیدہ لوگ تھے۔ 
1947ءمیں تقسیم ہند کے وقت ایک زبانی روایت کے مطابق قتل اور نفرت کی ابتداءپوٹھوہار سے ہوئی۔ دنیاوی اصول کے مطابق ہر جرم کا الزام ہمیشہ غریب آدمی پر ہی لگتا ہے چاہے وہ مجرم ہو یا نہ ہو۔ لہٰذا یہ الزام بھی مسلمانوں پر لگا۔ اگر مسلمانوں نے واقعی کچھ قتل و غارت کی یا وہ کہیں ایسا کرنے کی پوزیشن میں تھے تو وہ صرف مغربی پنجاب تک محدود تھے جبکہ سارے ہندوستان میں سکھ اور ہندو ہر جگہ مسلمانوں پر غالب تھے۔یہ مغربی پنجاب کی نسبت 5سے 6 گنا زیادہ علاقہ تھا۔ مسلمان غریب تھے، بے بس تھے اور بغیر مناسب ہتھیاروں کے تھے ۔ وہ اس قابل ہی نہ تھے کہ ہندوو¿ں اور سکھوں سے لڑیں لہٰذا ہر جگہ قتل و غارت کا ہدف وہی بنے۔ مسلمانوں کی یہ بے بسی لیفٹیننٹ جنرل سر فرانسس ٹکر نے مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کی ہے ۔
''کلکتہ ''میں تو ہر وقت کسی نہ کسی شکل میں فسادات جاری رہتے جنکا زیادہ تر نقصان مسلمان آبادی ہی کو ہوتا۔ مسلمانوں کی اکثریت شہر کے اردگرد کچی آبادیوں میں رہتی تھی جبکہ ہندو مالدار۔ پڑھے لکھے تجارت اور سرکاری دفاتر پر مکمل طور پر قابض تھے۔ ہندومہا سبھا اور سابق انڈین نیشنل آرمی کے ہندو غنڈے کسی نہ کسی بات پر مسلمانوں کے خلاف کوئی نہ کوئی الزام لگا دیتے جس سے فسادات شروع ہو جاتے۔ کچھ مسلمان مارے جاتے۔ اکا دکا ہندو بھی قتل ہوتے اور پھر مسلمانوں کی بستیوں پر حملے شروع ہو جاتے۔ جھونپڑیاں جلا دی جاتیں۔ نوجوان خواتین کی ابروریزی کی جاتی۔ پھر پولیس یا فوج آکر بڑی مشکل سے حالات پر قابو پاتی۔
ایک خصوصی ہندو غنڈہ فورس بھی معرض وجود میں آگئی جو فسادات پھیلانے۔چاقو زنی۔ لوٹ مار اور آگ لگانے کے ماہر تھے۔ ان میں یونیورسٹی کے نوجوان طلبا بھی شامل تھے۔ ہندو¶ں نے مختلف ذرائع سے فوجی اسلحہ بھی حاصل کر رکھا تھا۔ بعض حالات میں کلکتہ کی امیر کبیر یہودی آبادی بھی ان کے ساتھ شامل تھی۔
بد قسمتی سے فوج کے کچھ غلط فیصلوں کی وجہ سے بے تحاشا اسلحہ ان لوگوں کے ہاتھ لگا جسے بہار، بنگال اور پنجاب تک پھیلا دیا گیا۔ دراصل ہوا ایسے کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر بہت سا گولہ بارود بر ما کے محاذ پر بچ گیا۔ جب جاپانیوں کو شکست ہوئی تو انکا گولہ بارود بھی برٹش انڈین فوج کے ہاتھ لگا۔ یہ اتنا زیادہ تھا کہ اسے کسی محفوظ ایمونیشن ڈپوتک لانے میں نقل و حرکت پر بھاری اخراجات درکار تھے جو حکومت کے پاس نہ تھے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اگر یہ اسلحہ محفوظ مقامات پر نہیں لے جایا جا سکتا تھا تو اسے تباہ کر دیا جاتا جو کہ فوج کا اصول ہے لیکن نجانے کیوں اسے وہیں پر زمین کھود کر دفن کرنے کا حکم ملا جس پر نیم دلی سے عمل کیا گیا۔ جو نہی فوج وہاں سے اپنے اپنے امن سٹیشن کی طرف روانہ ہوئی ہندو لیڈروں اور تاجروں کو سونے کی کانیں مل گئیں۔ ان لوگوں نے ہزاروں کے حساب سے قلی لگا کر تمام اسلحہ کھدوا کر باہر نکالا اور کروڑوں میں بیچا۔
اس علاقے میں امریکن آرمی بھی تھی۔ یہی غلطی ان سے بھی سرزد ہوئی یا پھر جان بوجھ کر انہوں نے ایسا کیا۔ انہیں گولہ بارود تباہ کرنے کے لئے کہا گیا جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ کچھ امریکی سولجرز نے موقعہ سے فائدہ اٹھا کر یہ اسلحہ مقامی تاجروں اور غنڈوں کے ہاتھ بیچ دیا۔ باقی بہت بڑے بڑے ڈھیر ادھر ہی دبا دیئے جو بعد میںطاقتورلوگوںنے نکال لئے۔ کلکتہ کے نزدیک” کنچرا پاڑہ“ کیمپ سے گولہ بارود کی بھاری مقدار قلی نکال کر لے گئے۔ یہ کیمپ امریکی فوج کے زیر استعمال تھا۔ بعد میں جب انگریزوں کو علم ہوا تو وہ موقعہ پر پہنچے اور جو دفن کیا گیا اسلحہ تا حال کسی کے قبضے میں جانے سے بچ گیا تھا اسے قبضے میں لیکر تباہ کر دیا۔ 
اسی طرح آسام میں '' ما کوم امریکن آرڈننس ڈپو اور دیر گڑھ میں بھی بہت سا اسلحہ امریکی سولجرز نے ہندو کنٹریکٹرز کے ہاتھوں بیچ دیا اور باقی اسلحہ پر ان کنٹریکٹرز نے خود قبضہ کر لیا۔ اس اسلحے کا بعد میں خمیازہ مسلمانوں اور انگریز فوج دونوں کو بھگتنا پڑا جنہیں حالات پر قابو پانے کے فرائض سونپے گئے تھے۔ مسلمان ڈائرکٹ اس اسلحے کا ٹارگٹ بنے اور انگریز فوج فسادات پر قابو پاتے وقت نشانہ بنتی۔
16اگست 1946 کو مسلمانوں کے لیڈر مسٹر جناح نے ڈائرکٹ ایکشن ڈے منانے کا اعلان کیا۔ پروگرام کے مطابق کلکتہ میں شام 3 بجے Ochtarlony Monument'' "کے علاقے میں مسلمانوں کا جلسہ ہونا قرار پایا جس سے بنگال کے وزیر اعلیٰ حسین شہید سہروردی نے خطاب کرنا تھا۔ یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا جس میں مسلمان صبح سے شام تک روزہ رکھتے ہیں۔ ہندو¶ں اور سکھوں کا فیصلہ تھا کہ مسلمانوں کا یہ جلسہ کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ 12 اگست سے ہی حالات خراب ہونے شروع ہو گئے۔ اکا دکا چاقو زنی کی واردات کی اطلاعات آنی شروع ہوئیں۔ پولیس تو الرٹ تھی ہی ساتھ فوج کو بھی الرٹ کر دیا گیا۔ 16 اگست کی صبح ہی کو ہندو¶ں نے جلسہ گاہ کی طرف جانے والی تمام سڑکیں بلاک کر دیں۔ جہاں کہیں مسلمان نظر آتا ہندو غنڈے حملہ کر دیتے۔
ایک حیران کن اطلاع یہ ملی کہ ہندو تاجروں اور ہندو لیڈروں نے غنڈے دیہاڑی پر لے رکھے تھے۔ وہ قتل۔ لوٹ مار اور جلا¶ گھیرا¶ کے ماہر تھے۔ اچانک حملے کر کے قتل کر دیتے۔ گھر اور دوکانیں جلاتے جتنی زیادہ تباہی پھیلاتے اتنا زیادہ معاوضہ ملتا۔ بہر حال شام کو جلسہ تو ہوا۔ مسلمان کسی نہ کسی طریقے سے وہاں پہنچ گئے۔
 رات ایک بجے تک سوائے ادھر ادھر قتل اور لوٹ مار کی اکا دکا واردات کے حالات پولیس کے قابو میں رہے۔ رات ایک بجے کے بعد لوٹ مار اور قتل و غارت وسیع پیمانے پر شروع ہوئی۔ ہندو غنڈے ہاتھ میں مشعلیں لے کر دوڑتے۔ دکانوں اور مکانوں کو آگ لگا دیتے۔ اس مقصد کے لئے ٹائر جلانے والی اور تیل پھینکنے والی پارٹیاں علیحدہ تھیں اور یہ سب اپنے اپنے کام میں ماہر تھیں۔ پوری رات لوٹ مار جاری رہی۔ پولیس بالکل نا کام ہو گئی۔ صبح روشنی کے ساتھ لوٹ مار اور قتل و غارت میں مزید تیزی آگئی۔ (جاری ہے۔)

مزیدخبریں