کشمیریوں کا احتجاج اور دشمن کا پروپیگنڈا

گزشتہ دنوں آزاد کشمیر کے شہریوں نے اپنے مطالبات کے حق میں ایک تحریک چلائی۔ اس تحریک پر بات کرنے سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کے بیان کا ذکر کر دوں۔وزیراعظم محمد شہبازشریف نے آزاد جموں و کشمیر حکومت کی کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے دن بہت تشویشناک تھے، ایک تحریک چل رہی تھی، جن میں کچھ لوگ اپنے جائز مطالبات کے لیے جمہوری انداز میں اپنا فریضہ ادا کررہے تھے۔
لیکن اس تحریک میں بعض شرپسند عناصر بھی شامل تھے جن کا مقصد آزاد کشمیر میں توڑ پھوڑ، انسانی جانوں کا ضیاع اور جلاو¿ گھیراو¿ تھا جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار اور کچھ شہری جاں بحق ہوگئے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ جاں بحق افراد کے لیے حکومت نے شہدا پیکیج کا اعلان کیا ہے، جو انہیں فی الفور پہنچایا جائے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں وزیراعظم آزاد کشمیر، اور دیگر تمام افراد کا مشکور ہوں جنہوں نے اس نازک مرحلے پر بہترین مشورے دیے اور ہم نے بروقت اس معاملے کو ختم کیا اور ان کے مطالبات کی بلاتاخیر منظوری دیتے ہوئے 23 ارب روپے کا پیکیج منظور کیا، یہ ہم آپ پر احسان نہیں جتا رہے بلکہ یہ ہمارا فرض ہے، پاکستانی اور کشمیری دونوں نے ایک دوسرے پر ہمیشہ محبتوں کے پھول نچھاور کیے ہیں۔شہباز شریف نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کی ٹیم دورے پر پاکستان آئی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے وزیر توانائی اور سیکریٹری وہاں مصروف ہیں، جیسے ہی ٹیم واپس جائے گی، میں نے وزیراعظم آزاد کشمیر سے گزارش کی ہے کہ اپنی ٹیم تشکیل دے دیں تاکہ زیرالتوا مسائل پر ہم سیر حاصل گفتگو کرکے مستقل بنیادوں پر معاملات حل کریں تاکہ قیامت تک ایسا واقعہ دوبارہ رونما نہ ہو۔ (وزیراعظم کی یہ دردمندانہ سوچ اس بات کی عکاس ہے کہ وہ مسائل کے حل کیلئے کوشاں ہیں اور وہ کشمیر کے شہریوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر سلجھانے کیلئے ہی متحرک ہوئے ہیں)۔
ادھر وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ آزاد کشمیر میں ہونے والے احتجاج کے پیچھے بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کا اندیشہ ہے، ہمارے پاس ثبوت ہیں کہ کس طرح باہر کے ملکوں میں سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی کہ 17 بندے مرگئے، 11 بندے مر گئے، ویڈیوز کو ایڈٹ کیا گیا جس پر ہم نے پہلے ہی کام شروع کردیا ہے، اس کا ہمسایہ ملک سے کہیں نہ کہیں لنک بن رہا ہے۔ ہم اس پر باضابطہ طور پر اس وقت بات کریں گے جب ہمارے پاس حتمی ثبوت ہو گا۔یہ تو تھی پاکستان کی حکومت کے دو سب سے اعلی عہدوں پر موجود لوگوں کی رائے کہ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ احتجاج کرنا حق تھا لیکن احتجاج کی آڑ میں جس طرح پاک فوج اور پاکستان کے اداروں کو برا بھلا کہا گیا وہ معنی خیز تھا۔سستی بجلی،سستی روٹی سستا آٹا نہ صرف آزاد کشمیر کے باسیوں کا حق ہے بلکہ ہر پاکستانی کا بھی اتنا ہی بنیادی حق ہے جتنا آزاد کشمیر میں بسنے والے شہریوں کا ہے۔یہ احتجاج تھا تو مقامی شہریوں کی جانب سے لیکن اسے کوریج اور پاکستان سے علیحدگی کی تحریک بھارت کا میڈیا بنا کر پیش کر رہا تھا۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب پاکستان کے دو سپریم لوگ یہ بات کر رہے ہیں کہ اس احتجاج کے پیچھے بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کے شواہد پائے جا رہے ہیں تو پھر ان کو سامنے بھی لایا جانا چاہیے۔ہمارے کچھ دوست بڑے جذباتی ہو کر اسے بنگلہ دیش جیسی صورتحال سے جوڑ رہے ہیں اور کچھ تو اسے بھارتی مقبوضہ کشمیر سے بدتر قرار دے رہے تھے۔
میرا ان سے سوال ہے کہ آزاد کشمیر میں سیاسی احتجاج کرنا تو ہر جماعت کا حق ہے اور اس دوران اگر انتظامیہ اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان کوئی کھٹ پٹ ہو جاتی ہے تو کیا اس صورتحال کو مقبوضہ کشمیر سے بدتر قرار دیا جا سکتا ہے جہاں بھارت کی ظالم افواج تو بنا کسی احتجاج کے بھی کشمیریوں کو شہید کر رہی ہے۔ وہاں ہزاروں شہری جیلوں میں قید ہیں اور ہزاروں خواتین بیوگی کی زندگی گزار رہی ہیں اور خواتین کی عصمت تار تار ہو رہی ہے۔ اس بدترین صورتحال کو پاکستان کے آزاد کشمیر سے جوڑنے والے یقینا احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اور اگر اس طرح کے نام نہاد دانشوروں کو پاکستان اتنا ہی برا لگ رہا ہے تو یہ مقبوضہ کشمیر کیوں نہیں شفٹ ہو جاتے تا کہ انہیں اندازہ ہو جائے کہ ہندوتوا کے وار کیسے سہے جاتے ہیں۔یہ تو پاکستان کی حکومت اور اداروں کو داد دینا بنتی ہے کہ جنہوں نے صورتحال کو بگڑنے سے بچایا اور دشمن کی سازش کو جڑ پکڑنے سے پہلے ہی اکھاڑ دیا۔وگرنہ پاکستان کے دشمن تو اس تاک میں تھے کہ احتجاج کو آڑ بنا کر اس کو آزادی کی تحریک بنا کر پیش کیا جائے اور مودی سے داد وصولی جائے۔سوشل میڈیا چونکہ اب ایک ہتھیار بن چکا ہے اور اسی کو استعمال کرتے ہوئے دشمن قوتیں انتشار پھیلانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اب یہ ہماری اور ہمارے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے عناصر کی سرکوبی کریں اور ان کے مقاصد پورے ہونے سے قبل ہی ان کا قلع قمع کردیں تاکہ مستقبل میں اس طرح کی صورتحال سے بچا جا سکے اور دشمن کے پروپیگنڈہ کو پھیلنے سے قبل ہی انجام تک پہنچایا جا سکے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...