مولانا فضل الرحمن کے کہنے پر دوبارہ الیکشن نہیں ہو سکتے، نوید قمر۔
مولانا کا دوبارہ الیکشن کا مطالبہ دیرینہ ہے۔ وہ 2018ءکے انتخابات کے بعد سے دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب کے بھی ان کے مطالبے میں اتنا ہی جلال اور اشتعال ہے۔ کچھ لوگ مولانا کے بیانات میں جمال تلاش کر رہے ہیں۔ ان کے دوبارہ الیکشن کے بیان کو کوئی جان دار کہہ رہا ہے کوئی بے جان اور کوئی پیالی میں طوفان قرار دے رہا ہے۔ اس پر کہیں سے منفی ردّعمل نہیں آیا۔ مخالفین مولانا کے دبدبے کے خوف سے خاموش ہیں یا پھر ان کے بیان کو اہمیت ہی نہیں دے رہے۔
مولانا دوبارہ الیکشن کے بجائے پی ٹی آئی کی طرح یہ کیوں نہیں کہتے کہ ان کا چوری شدہ مینڈیٹ لوٹایا جائے جو انکے بقول ایک تہائی بنتا ہے۔ کونسا زور اور زر لگتا ہے۔ مولانا ایک چوتھائی کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ نوید قمر نے مولانا کے دوبارہ الیکشن کے مطالبہ پرکہہ دیا ان کے کہنے پر دوبارہ انتخابات نہیں ہو سکتے۔ یہ بیان الیکشن کمیشن کی طرف سے آ سکتا تھا۔ ہو سکتا ہے الیکشن کمیشن مولانا کے مطالبے پر غور کر رہا ہو اس لئے خاموش ہو۔ نوید قمر نے کیا خود کو الیکشن کمیشن سمجھ کر یہ بیان دیا ہے؟
اپنے ایم پی ایز سے کہتی ہوں پولیس والوں کی سفارشیں کرنا چھوڑ دیں: مریم نواز۔
اپنے علاقے میں ٹورٹپہ بنانا ہر کسی کی تو نہیں کئی عوامی نمائندوں کی خواہش اور ضرورت ہوتی ہے۔ مخالفین کی ٹِنڈ اور حجامت پولیس اور پٹواری سے زیادہ کون کر سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے پاس ہر ایم پی نے کسی نہ کسی کام کے سلسلے میں آنا ہوتا ہے۔ ہر کوئی پولیس کی سفارش کے لئے نہیں آتا ہے۔ کئی سکول ہسپتال کی تعمیر اور دیگر فلاحی کاموں کے لیے بھی آتے ہیں اور دل کی مراد پاتے ہیں۔مگر پولیس والوں کے سفارشی اب ذرا محتاط ہو جائیں۔ ضروری نہیں ایم پی اے کسی تھانیدار کو اپنے علاقے میں لانا یا کسی کو نکلوانا چاہتا ہو۔
حلقے سے تعلق رکھنے والا پولیس اہلکار اٹک سے اپنا تبادلہ پتوکی کرانے کی سفارش کے لیے بھی اپنے بااثر بڑوں سے کہلوا سکتا ہے۔ پروموشن کی سفارش ہو سکتی ہے۔ حلقے کے کسی چودھری سے حوالدار نے ماتھے پر تیوڑی ڈال کر بات کر لی تو اس کا تبادلہ دوسرے صوبے میں نہیں تو ایسے علاقے میں ضرور کرانے کی کوشش کریگا جہاں تانگہ رکشہ تو کیا سائیکل موٹر سائیکل بھی نہ جاتا ہو۔اس حوالے سے کچے کا علاقہ موزوں ہے۔
ہمارے ہاں پولیس کے زور پر بہت کچھ چلتا ہے۔کسی کی چوری نکلوانی ہوتی ہے کسی پر ڈلوانی ہوتی
ہے اور کسی کے ہاں چوری کروانی ہوتی ہے۔ اگر ایم پی اے پولیس والوں کی سفارشیں نہ منوا سکیں تو پھر ایم پی اے بننے کا فائدہ ؟ ہاں فائدہ ہو سکتا ہے آپ کی وزیر اعلیٰ آپ کے ووٹر اور سپورٹر کی فلاح و بہبود کے کام یکسوئی کے ساتھ کر سکیں گی۔
کراچی میں نویں کا کیمسٹری کا پرچہ 40 منٹ پہلے سوشل میڈیا پر آﺅٹ ہوگیا۔
نقل امتحانوں میں ہر جگہ چلتی ہے کہیں کم کہیں زیادہ مگر کراچی میں جو ہوتا ہے وہ نقل اور چیٹنگ سےکچھ آگے کا ہے۔ کراچی والے نقل چیٹنگ اور بوٹی کے ماسٹر بلکہ ماسٹر مائنڈ ثابت ہوئے ہیں۔ ان کے ایجاد کردہ فارمولے سی ایس ایس کے امتحانوں تک بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ان فارمولوں کے آگےبوٹی لفظ بھی معمولی پڑ جاتا ہے بوٹا بھی نقل کا مفہوم بیان نہیں کر سکتا۔
میٹرک بورڈ کے ترجمان نے تنبیہ کی ہے کہ دورانِ پرچہ موبائل فون برآمد ہوا تو ضبط کر لیا جائے گا۔واہ! موبائل لے جانے والا بری الذمہ، تھوڑی سی ''سختی "کر دیں کہ بوٹی لگانے کے بعد موبائل ضبط کیا جائے گا۔ ایسے امتحانوں کو عبور کر کے آنے والے بڑے افسر بنیں گے تو ان کے زیر نگرانی گوداموں سے گندم چوہے ہی کھائیں گے۔ بینکوں میں قرضے کے فارم کے ساتھ قرض معاف کرانے کا فارم بھی دے دینگے۔ ایوانوں میں جا کر دست و گریبان ہونگے صرف ہاتھ ہلائیں گے اور نعرے لگائیں گے۔ کئی بوٹے شیخی بگھارتے ہیں کہ پرچہ گڈ کے کیا ہے۔ رکھ کے کیا ہے۔ یعنی میز پر چاقو گڈ کے اور پستول رکھ کے امتحان دیا ہے۔
ایک ٹیوٹر کو بچے ماسٹر بوٹی کہتے ہیں۔ وہ اپنے شاگردوں کو بازو پر لکھی بوٹی دکھا رہا تھا جو 16ویں سے سترویں گریڈ کے امتحان میں لگا کے آیا تھا۔ بوٹی پکڑی نہیں جا سکتی۔ایک طریقہ پکڑا جاتا تو دوسرا تیسرا ایجاد ہو جاتا ہے۔ کان میں آلہ سماعت گندم کے دانے جتنا لگ جاتا ہے۔ پانچ ہزار امیدواروں کے کریں کان چیک، بوٹی لگانا بھی ہر کسی کا کام نہیں۔ کھڑکی کے باہر سے بوٹی بنانے اور بھجوانے والے نے بوٹی لگانے والے سے پوچھا پہلا سوال کر لیا تو دوسرے کا جواب بھیجوں؟ جواب آیا ابھی تو ہاتھ کا نشان بنا رہا ہوں۔تیسری بار امتحان دے کر آنے والا نوجوان دوست سے کہہ رہا تھا کہ اب کوئی مجھے فیل نہیں کر سکتا پورا پیپر کتاب سے دیکھ کر لکھا ہے۔دوسرے دوست نے حیرانی سے کہا یہ تو مارکنگ کرنے والے کو پتہ چل جائے گا۔اس پر پہلے دوست نے اتراتے ہوئے جواب دیا مجھے تم نے کیا پھتو سمجھ رکھا ہے میں نے ایک کے بعد ایک سطر چھوڑ کے لکھا ہے۔
اسلام آباد میں روٹی کی قیمت 18 روپے مقرر۔
وفاقی دارالحکومت کے تندوچیوں اور نانبائیوں نے 16 روپے کی پ±ھلکی فروخت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ہڑتال کی دہائی دی اور اپنی مراد پائی۔ متصل شہر راولپنڈی میں روٹی 15 روپے کی ہے۔ جینٹری کے نانبائی 18 کی بیچیں گے۔ پنجاب میں بھی 16 روپے کی ہوئی تو رولا پڑ گیا تھا کہ صرف آٹا سستا ہونے پر روٹی سستی نہیں کر سکتے۔ گیس بجلی اور آٹے میں ڈالنے والا وہ نمک بھی سستا کیا جائے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے آٹے میں نمک کے برابر۔ اب حکومت نے پٹرول سستا کر دیا ہے۔ اس سے قبل بھی کیا تھا۔ پٹرول مہنگا ہونے پر روٹی کی قیمت میں اضافہ ہوا تھا نان بائی اور ”روٹی بائی“ صاحبان روٹی کی قیمت اسی سطح پر لے آئیں جو پٹرول مہنگا ہونے سے قبل تھی۔ انتظار نہ فرمائیں کہ کوئی گردن پر ہاتھ ڈالے۔ ویسے شاباش ہے انتظامیہ کو جس نے اسلام آباد میں روٹی 18 روپے میں فروخت کرنے پر اتفاق کر لیا۔ کیا دارالحکومت میں رہائش پذیر ہونے کے باعث جینٹری یعنی اشرافیہ بلکہ اشرف المخلوق ہونے کا زعم ہے۔