تیمور ڈار
گزشتہ دو سال کا عرصہ عوام نے یہ سوچ کر گزارا کہ ملک میں انتخابات ہو جانے پر معاملات زندگی بھی آسان ہو جائیں گی۔ اس دو سالہ عرصہ میں عوام پر پٹرول بم سے لیکر بجلی بم تک گرائے ،ڈالر کی قیمت دن بدن بڑھتی گئی۔ہمارے ہاںچونکہ ہر چیز پٹرول کی قیمت سے منسلک ہے، ریڑھی پہ کیلے لگانے والا جب تین سو روپے درجن کیلے فروخت کرتا ہے تو اس کی زبان پر بھی پٹرول کی بڑھتی قیمت اس کا جواز ہوتا ہے۔ لوکل ٹرانسپورٹ پہ سفر کرنے والا ہو یا پرائیوئٹ سکول میں بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ، سب مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔اس بار تو بہت ہی حیران کن معاملہ ہوا ، غریب تو غریب ہم نے امیر کو بھی پریشان دیکھاا ور ایسا پریشان کہ اللہ کی امان۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسی ہوش ربا مہنگائی پہلے کبھی دیکھی نہ سنی ۔ آپ کسی بھی انڈسٹری کو اٹھا کر دیکھ لیں ایک ایک کر کے ہم نے سب کو تباہ کر دیا۔ قیمتِ خرید اس حد تک لے گئے کہ مڈل کلاس تو کیا اپر کلاس بھی خریدنے سے پہلے سوچنے پہ مجبور ہو گئی۔ فیکٹری مالکان بھی سوچنے لگے کہ بڑی گاڑی پہ جانا ہے یا چھوٹی کار استعمال کر کے پٹرول کی بچت کی جائے۔ اگر غریب کی بات کریں تو محاورہ سچ ثابت ہوا ، اسے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے ۔ان سب عوامل کے ہوتے ہوئے نئی حکومت کا آنا عام آدمی کیلئے امید افزاء نہ ہو سکا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ حکومتیں بدل جاتی ہیں مگر ہمارے حالات نہیں بدلتے۔’ مشکل وقت ہے‘ یہی کہہ، سن کر عام آدمی اپنی جوانی گزار چکا ہے، بچے بڑے ہو گئے،بوڑھے والدین کی مشکلات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں۔
نئی حکومت کی کارکردگی گزرے دو سالوں جیسی ہی ہے۔ کم ازکم اگر حکومت اپنے اخراجات پہ قابو پا لیتی تو شائد امید کی کرن جاگ جاتی مگر ایسا نہ ہو سکا۔لوگوں کے وہی چہرے وہی باتیں ہیں، مگر کچھ بدلا ہے تو ان کی پارٹیز بدل گئی ہیں۔ یقین جانیں اب تو یہ بھی لکھنے کی ہمت نہیں رہی کہ حکومت ہوش کے ناخن لے۔ عوام کو خو د اپنے لئے محنت کرنا ہو گی۔آج انڈسٹری میں نوکریوں کی جو صورتحال ہے اس کے بعد عام آدمی کو اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے اپنے لئے آمدنی کے نئے ذرائع پیدا کرنے ہو ں گے۔ وگرنہ ڈالر اور پٹرول کی ٹرپل سنچری ہونے کو ہے ایک عام آدمی جب تک روایتی طریقوں سے روزگار کمانے میں لگا رہے گا ، دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہو جائے گا۔ اپنی اسکلز پر کام کرنا ہوگا۔ اپنی چادر کے مطابق پائوں پھیلانا ہوں گے، اپنے لائف سٹائل کو بدلنا ہو گا۔ بطور مسلمان ہم مایوس نہیں ہو سکتے، بھروسہ رکھیں اللہ وسیلے پیدا کرنے والا اور آسانیاں پیدا کرنے والا ہے۔ حکومت کو کوسنا چھوڑیں ہم نے ہمارے ہمسائے کے سرخ چہر ے کو دیکھ کر اپنا چہرہ سرخ کر لیا ہے ، چاہے ہمیں تھپڑ ہی کیوں نہ مارنے پڑیں۔ ہمارا یہ رویہ بہت ہی عمومی ہے، ہم اپنے بچوں کے مستقبل کا فیصلہ بھی دوسروں کودیکھ کر کرتے ہیں۔آج پاکستان میں ایک بھی ڈگری یا تعلیمی ادارہ ایسا نہیں ہے جو آپ کو کامیاب کاروبار یا ملازمت کی گارنٹی دے۔اپنے بچوں کو اسکلز سیکھائیںاور ان کا انکی منشاء کے مطابق مستقبل کا فیصلہ کرنے دیں۔ یہی ایک طریقہ ہے کامیابی کا، کہ آپ دل سے کام کریں اورتخلیقی کام کریں، جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں بھی اپنا نام روشن کر سکیں۔
ایک تازہ ترین سروے کے مطابق پاکستان میں مہنگائی دنیا کے دیگر ملکوں سے بہت زیادہ بتائی جاتی ہے۔ عام و خاص تقریباًسب ہی ایک جیسے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم پچھتر سالہ تاریخ کے سب سے تباہ کن حالات کا سامنا کر رہے ہیں تو بے جانہ ہو گا۔ مہنگائی کی یہ لہرنہ جانے کتنے گھروں اور ان کی خوشیوں کے بہا کر لے گئی۔معمولاتِ زندگی اس نہج پہ پہنچ چکے ہیں کہ عوام زندہ میں ہے اور نہ ہی مردوں میں۔ اس پہ تماشہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کو خون آشام مہنگائی سے پیدا ہونے والی صورتحال اور آخرت کی رتی بھر بھی پرواہ نہیں۔برطانیہ کے ایک غیر سرکاری ادارے آکسیفم کی جانب سے کروائے گے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ستاون فیصد افراد اب وہ خوراک نہیں کھا سکتے جو دو سال پہلے کھایا کرتے تھے۔ ہماری پالیسیزایسی ہیں جو کبھی عوام کو ذہن میں رکھ کر بنائی ہی نہیں گئیں ، مہنگائی پہ قابو پانا مشکل نظر آتا ہے۔
آج بھوک ۔۔ معاشی بدحالی اور مفلسی کا مسئلہ جتنا اہم ہو گیا ہے شاید پہلے کبھی نہ تھامہنگائی کی کوکھ سے جنم لیتی غربت اور مفلسی نے حکمرانوں کے دعووں اور وعدوں کو سراب کی سی شکل دے رکھی ہے ۔ اگر اس رجحان کو روکنے کے لئے عملی اقدامات نہ کئے گئے تو یہ سیلاب سب کچھ بہا لے جائے گا۔ اگر حکومت عوام کو ذہن میں رکھ کر پالیسیاں بنائے گی تو بلا شبہ ملک میں خوشحالی کا سورج چمکے گا۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب معاشی آسودگی سب کو میسر ہو۔