ملک کی سو بڑی کمپنیوں میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کا لگانا وقت کا تقاضا

عترت جعفری
احسن بختاوری راولپنڈی اسلام آباد کے بڑے کاروباری خاندان کے سپوت ہیں، ان جڑواں شہروں میں ایک ایسا وقت  بھی گزرا ہے  جب سر شام ہی کاروبار بند ہو جایا کرتے تھے، عشاء کے بعداس کی سڑکیں ویران ہونا شروع ہو جاتی تھیں، اس زمانے میں بختاوری خاندان نے ملکی اور غیر ملکی ساختہ ادویات کی دستیابی کو 24 گھنٹے ممکن بنا کر سیل ،معیاراور خدمات کی نئی مثال قائم کی، اور پھر  دیکھتے  ہی دیکھتے  یہ کاروبار جڑواں شہروں میں پھیل گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بختاوری خاندان نے دیگراشیاء کی پرچون سیل کا کام بھی شروع کیا ،جس کے بعد آج  بڑے سپر سٹور وجود میں آچکے ہیں ، بختاوری خاندان جڑواں شہروں کا مانا جانا کاروباری خاندان ہے۔ راولپنڈی اسلام آباد کی کاروباری تنظیموں اور  چیمبرز کے امور میں بختاوری خاندان کے افراد سرگرم رہتے ہیں، کاروبار اور صنعت  کے ایشوز کو سمجھتے ہیں، اور واضح رائے رکھتے ہیں۔ گزشتہ سال اسلام آباد چیمبر آف کامرس  اینڈ انڈسٹری کے الیکشن میںاحسن  بختاوری واضح اکثریت کے ساتھ اس کے صدر منتخب ہوئے، اب ان کے منصب صدارت کی میعاد کا دوسرا سال شروع ہو چکا ہے، اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اس وقت سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے، شاید ہی کوئی دن گزرتا ہو جس میں اسلام آباد چیمبر میںکوئی تقریب نہ ہو۔ کاروبار اور صنعت کے فروغ کے ساتھ ساتھ سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں سمیت تعلیم اور صحت کے میدان میں بھی اسلام آباد چیمبر کی ایک چھاپ موجود ہے۔ 
ملک میں وفاقی  بجٹ کی تیاری ہو رہی ہے، ملک کے دیگر چیمبرز کی طرح اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری بجٹ کی تیاری میں مصروف ہے اور اپنا ان پٹ وفاقی حکومت کو فراہم کرتا ہے تاکہ بجٹ میں ایسے فیصلے ہوں جو صنعت و حرفت کیلئے معاون بنیں ۔ صدر چیمبر احسن بختاوری نے نئے سال کے بجٹ کے حوالے بات چیت میں وضاحت کے ساتھ اپنا نکتہ ء نظر پیش کیا جو نذر قارئین ہے۔ احسن بختاوری نے حکومت کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے مقابلے میںکم آمدن کے ضمن میں کئے گئے سوال کے جواب میں واضح کیا کہ ایف بی آر کی کلیکشن بہت کم ہے، ملک اس وقت جس نہج پر آ گیا ہے اس میں ٹیکس کی بیس کو بڑھائے بغیر اب کوئی چارہ کار نہیں رہا، یہ بہت ہی بدقسمتی کی بات ہے کہ ملک کے اندر ٹیکس نیٹ کے بڑھانے کے طریقے موثر ثابت نہیں ہو پا رہے ،  اب پہلے قدم کے طور پر تمام بڑی کمپنیوں اور اداروں میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لگا دینا چاہیے۔ جس سے ہول سیلر سے ریٹیلرز تک کی تمام چین سامنے آ جائے گی۔  اگرتاجر دوست سکیم کامیاب نہیں ہو سکی توپالیسی کو اس انداز میں ترتیب دیا جائے کہ  اس کا اثر اوپر سے نیچے کی طرف آئے، مگر یہاں نیچے سے اوپر کی طرف جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ طریقہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آپ نان ٹیکس پیئرز،ہول سیلر یا ریٹیلر کو  سامان ہی نہ بیچیں۔ ملک کی سوبڑی کمپنیاں  ہیں ان میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کا لگانا وقت کا تقاضا ہے ، یہ سسٹم اگر لگ جاتا ہے اور کامیابی سے کام کرتا ہے تو ریونیومیں کئی گناہ اضافہ ہوگا، اور عوام کو ہیوی ٹیکسیشن سے نجات مل سکے گی۔ احسن بختاوری کا کہنا تھا کہ حکومت کی تحویل میں کاروباری ادارے 1500 ارب روپے کا نقصان کر رہے ہیں، یہ خزانے  کے لیے بہت بڑا بوجھ ہے، سرکاری خزانے سے ان کو سبسڈی دی جاتی ہے، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، عوام کو اس سے کیا ریلیف مل رہا ہے؟  بجٹ  اقدامات میں  ان اداروں کی نجکاری کو ترجیح دی جائے، اگر ملک کو 1500 ارب روپے کی بچت ہوگی، اس رقم کو آپ صحت تعلیم بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر کی طرف موڑ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کو برآمدات کی ضرورت ہے، پاکستان جیسے ملک کے لیے 30 ارب ڈالر کی برآمدات کوئی معنی نہیں رکھتی ہے، بجٹ میں برآمدگان کے لیے ایک پیکج لایا جائے، بجٹ کے اندر انرجی کی لاگت کی کمی اور کاسٹ آف ڈوئنگ بزنس میں کمی کے اقدامات ہونا چاہیے، دو وجوہات کی وجہ سے ملکی برآمدات بڑھ نہیں پا رہیں، اگر ہم انرجی کی کاسٹ میں ہمسایہ ممالک  کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے تو برآمدات  کیسے بڑھائیں گے۔  احسن بختاوری کا کہنا تھا کہ مارک آپ ریٹ کو بھی نیچے آنا چاہیے، انرجی مکس کو بہتر کیا جائے، بجلی کی پیداوار بڑھانے پر خصوصی توجہ دینا چاہیے، ڈسکوز میں اصلاحات کی جائیں اور بجلی کی چوری  کا تدارک کیا جائے۔
 حکومتی پالیسیوں کی ناکامی پر سوال کے جواب میں احسن بختاوری نے کہا ملک کے نظام میں بیوروکریسی کی ایک بہت بڑی اہمیت ہے، بیوروکریسی نظام میں اصلاحات وقت کا تقاضہ ہے، بیوروکریسی پالیسیوں پر عمل درآمد میں اس طرح کا تعاون نہیں کرتی، جس کی وجہ سے مطلوبہ نتائج نہیں ملتے۔ اس وقت ملک کے اندر سعودی سرمایہ کاری کی بات ہو رہی ہے پانچ ارب ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری کے منصوبے بن رہے ہیں، اس میں بیوروکریسی کا بہت اہم کردار ہوگا۔ سرمایہ کار قدم قدم پر آنے والی رکاوٹوں سے گھبرا جاتا ہے، صنعت، زراعت، آئی ٹی اور  اور دیگر  سیکٹر میں منصوبوں کیلئے آسانی بہم پہنچائی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر میں اصلاحات بھی ضروری ہے ۔ ان لینڈ ٹیکسز اور کسٹم ڈیوٹی کو الگ الگ کر دیا جائے،  ڈیجیٹلائزیشن، اور ٓاٹومیشن  سے ٹیکس پیئر کے ساتھ انٹریکشن کم سے کم سطح پہ لایا جا سکتا ہے۔ ٹیکس کے ادارے کے پاس اگر ہر فرد کا ایک ریکارڈ موجود ہے، تو اس کی بنیاد پر ہی کوئی کام کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بہت سارے مسائل عدم اعتماد کی وجہ سے پیدا ہوئے کوئی چھوٹا تاجر ہے یا بڑا کوئی چھوٹا صنعت کار ہے یا بڑا، ٹیکس نیٹ میں آنے پرکسی کو اعتراض نہیں ہے، اصل ایشو بے اعتمادی ہے۔ ٹیکس لینے والے ادارے کی ساکھ  بہتر ہوگی، تو لوگ نیٹ میں آنا اپنے لیے اعزاز سمجھیں گے۔
 احسن بختاوری کا کہنا تھا کہ گندم کے معاملے کو ہی لے لیں، ملک میں کاشتکاروں نے گندم کی ایک بہت بڑی پیداوار دی ، اور جب گندم کی ایک بڑی فصل کی اطلاعات موجود تھیں تو عین اسی وقت گندم کی درآمد کی اجازت دی گئی، اس سے ہم نے کاشتکاروں کا نقصان کیا ہے اس طرح کے  غلط فیصلے نہیں کرنا چاہیے، اس پالیسی کی وجہ سے کاشتکاروں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے اور اس کا نقصان ہوگا، احسن بختاوری کا کہنا تھا کہ زراعت کے حوالے سے اب ضلع کی بنیاد پر حکمت عملی بنانا ضروری ہو چکا ہے، زراعت کے شعبے کوریسرچ بیسڈحکمت عملی  سے زیادہ پیداواری بنایا جائے، چاول گندم کپاس گنے اور دیگر اجناس کی کاشت کیلئے متعلقہ اضلاع جوموزوں ہیں وہاں کاشت کرائی جائے۔ اس طرح کا میکنزم اختیار کرنے سے زراعت میں ترقی تیزی سے ہو سکے گی۔ اسلام آباد میں صنعتی اور کاروباری سرگریبوں کو بڑھانے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسلام آباد  میںصنعتی  علاقے کی زمین تو ختم ہو چکی ہے۔ سی ڈی اے کی  زمین تو اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ وہاں صنعت  لگانا ممکن ہی نہیں رہا۔ اب اسلام اباد کے صنعت کار فیصل آباد ہری پور اور دیگر علاقوں میں جاتے ہیں، چیمبر کوشش کر رہا ہے اسلام آباد کے ارد گرد کے علاقوں میں حکومت کے تعاون سے چیمبر ایک انڈسٹریل اسٹیٹ قائم کرے، اس کے لیے ایک الگ سے کمپنی بنائی جائے، ان کا کہنا تھا کہ روات میں ایک اکنامک زون بن رہا ہے لیکن یہ بہت چھوٹا ہے، حکومت زمین کی فراہمی کے حوالے سے تعاون کرے تو اسلام آباد چیمبر اس کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرے گا۔

ای پیپر دی نیشن