پاکستان کرکٹ بورڈ کی بھاری بھرکم سلیکشن کمیٹی آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں کھیلے جانے والے عالمی کپ کے لیے کون سے پندرہ کھلاڑی سب سے بہتر ہیں۔ اس سلیکشن کمیٹی ماڈرن ڈے کرکٹ کھیلنے کے بڑے بڑے دعویدار بھی ہیں، اسی سلیکشن کمیٹی میں اعدادوشمار کے ماہرین کو بھی رکھا گیا ہے لیکن دنیا بھر سے عالمی کپ سکواڈز کا اعلان ہونے ہے باوجود پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی ابھی تک انتظار کر رہی ہے کہ شاید اچانک سے کوئی ٹارزن آئے، کوئی سپر مین آئے اور مسائل ہو جائیں، ان سب کی نوکریاں، عہدے برقرار رہیں اور ان کی اہلیت پر سوال بھی نہ ہوں یہ بچ جائیں لیکن کیا ایسا ممکن ہے ہر گذرتے دن کے ساتھ بیچینی بڑھ رہی ہے۔ اب تو یہ سوچا جا رہا ہے کہ شاید کسی پسندیدہ کرکٹر کی سکواڈ میں شمولیت اور کسی ناپسندیدہ کا راستہ روکنے کے لیے تاخیری حربے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر پاکستان کرکٹ میں پسند نا پسند کی بنیاد پر ٹیم کے انتخاب پر سوالات ہو رہے ہیں۔ سابق کرکٹرز اور ماضی میں سلیکشن کمیٹی کا حصہ رہنے والے بھی موجودہ سلیکشن کمیٹی کی حیثیت اور فیصلوں پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ سابق چیف سلیکٹر محمد وسیم نے بھی آئر لینڈ اور انگلینڈ کے لیے سلیکشن کمیٹی کے منتخب کردہ کھلاڑیوں پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔
سابق چیف سلیکٹر محمد وسیم کے محمد عامر، محمد حفیظ اور عماد وسیم پر جوابی حملے کرتے ہوئے ٹیم سلیکشن کو یاری دوستی پر مبنی قرار دیا ہے۔ وہ بابر اعظم اور محمد رضوان کے لیے بولے ہیں، کہتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹانے کے لیے کیا گیا ہے، یا اسے کپتانی سے ہٹا دو یا ان کی اوپننگ جوڑی توڑ دو، یہ دیکھے اور سوچے سمجھے بغیر کہ بابر اعظم اور محمد رضوان کی اوپننگ جوڑی کے ہوتے ہوئے کامیابیوں کی شرح کیا رہی ہے۔ محمد حفیظ نے ٹیم کا ڈائریکٹر بن کر بابر اعظم کو ذاتی رنجش اور انتقام کا نشانہ بنایا کیونکہ محمد حفیظ جب کرکٹ کھیلا کرتے تھے تو وہ نمبر چار پر بیٹنگ کرتے تھے ان کی بیٹنگ لیٹ آتی تھی یوں حفیظ نے طاقت میں آ کر اسی سوچ کے ساتھ کام کیا۔ رضوان اور بابر اعظم کی اوپننگ جوڑی کو انہوان نے ذاتی تجربے یا رنجش کی وجہ سے نشانہ بنایا۔ قومی ٹیم کے انتخاب کو دیکھا جائے تو اس معاملے میں جتنی دوستی یاری ان دنوں ہو رہی ہے شاید تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی، بابر اعظم اور محمد رضوان کی کامیاب اوپننگ جوڑی کو چھیڑا گیا کہ کسی کو سٹرائیک ریٹ پسند نہیں ہے۔ کیا کسی نے کامیابی کی شرح نہیں دیکھی کہ ان کی وجہ سے پاکستان کتنے میچز جیتا محمد عامر اور عماد وسیم کو ہم ورلڈکپ جیتنے کے لیے لائے ہیں وہ نیوزی لینڈ کی ایک ڈی ٹیم کے خلاف بھی سیریز نہیں جتوا سکے ہم نے بمشکل سیریز برابر کی ہے۔ جن لوگوں نے پیسے بنانے کے لیے ریٹائرمنٹ لی ہم نے انہیں گھر سے بلا کر قومی ٹیم میں شامل کر لیا ہے۔ عثمان خان نے بڑی قربانی دی ہے۔ میرے دور میں فزیکل فٹنس ٹیسٹ کے معاملے ہونے والی باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں جن کرکٹرز کو میرے دور میں فزیکل فٹنس پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے باہر کیا گیا وہ آج بھی فٹنس کلچر سے دور بھاگ رہے ہیں اور ڈنڈی مار رہے ہیں۔ فزیکل فٹنس کے معاملے میں سارا ریکارڈ موجود ہے ذرا چیک کریں اور بتائیں۔ میں نے جن لڑکوں کو ڈراپ کیا اس کی کوئی وجہ تھی۔ ہم نے عین ورلڈکپ سے قبل ٹیم میں تجربات شروع کر دیے یہ ایسے تجربات کا وقت نہیں تھا۔ اگر ہم پاور پلے اچھا کھیلنا چاہتے ہیں پہلے چھ اوورز میں زیادہ رنز بنانا چاہتے ہیں تو پھر یہ کام صرف صائم کے اٹیک کرنے یا تیز کھیلنے سے نہیں ہو سکتا مجھے تو لگتا ہے اوپننگ جوڑی ٹوٹنے سے بابر اعظم کا سٹرائیک ریٹ نیچے آیا ہے اگر ہم ابتدائی اوورز میں زیادہ رنز بنانا چاہتے ہیں تو دونوں اوپنرز کو چارج کرنا پڑے گا۔ بابر اعظم کو دوبارہ کپتان بنایا گیا ہے اگر وہ ورلڈکپ میں کامیاب نہ ہوا تو اسے پھر ہٹا دیا جائے گا کہ پہلے بھی ورلڈکپ نہیں جیت سکا اب نہیں ہٹاتے تو چیمپئنز ٹرافی کون سی دور ہے چند ماہ بعد پاکستان نے چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرنی ہے۔ سابق کرکٹر اور پاکستانی کی حیثیت سے یہی خواہش اور دعا ہے کہ پاکستان ورلڈکپ میں کامیابی حاصل کرے۔