لاہور (خبرنگار) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے انسداد دہشتگردی عدالت راولپنڈی سے 9 مئی کے حوالے سے بانی پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی، شیخ رشید سمیت اہم شخصیات کے کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی کرنے کے لئے حکومتی ٹیم کو مہلت دیدی۔ عدالت نے 20 مئی کو پیشرفت رپورٹ طلب کرلی۔ 7 جون تک ججوں کی تعیناتی کرکے رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔ جج تعینات کرنے والی کمیٹی کے ممبران وزیر قانون پنجاب، مریم اورنگزیب، مجتبیٰ شجاع الرحمان اور دیگر عدالت پیش ہوئے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ لیبر کورٹ کے ججز تعیناتی کے خطوط پر تین رکنی کمیٹی بنی، آپ نے جو ججز کے نام بھیجے ان کی ایمانداری، دیانتداری پر کوئی شک نہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں تو انصاف کیلئے بیٹھا ہوں۔ مریم اورنگزیب نے کہا آپ ہمیں چیمبر میں ملاقات کا وقت دیدیں مشاورت ہو جائے گی، جس پر عدالت نے کہا کہ یہ آپ کا مطالبہ ٹھیک نہیں ہے، جو بات ہوگی اوپن کورٹ میں ہوگی، قانون میں سب کچھ وضاحت سے لکھا ہے ابہام ہے ہی نہیں، میں نے آْپ کو نام دیئے ہیں ان کو تعینات کریں، وزیر قانون صاحب آپ تو باہر سے پڑھ کر آئے ہیں آپ بتائیں، جو بات قانون اور آئین میں لکھی ہے اس کے سوا کیا بات ہوگی۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے بامقصد بات چیت کیلئے وقت کی درخواست کی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ مشاورت ہی ہورہی ہے اور کیا ہے، میں منتخب ممبران کی عزت کرتا ہوں چاہے جیسے بھی ہوں، وزیر اعلیٰ نے اس معاملے پر مشاورت کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ، وہ آجاتیں یا پھر مجھے پیغام بھیج دیتیں۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ جو آپ نے نام بھیجے ہیں ان ہی پر غور کررہے ہیں، ہم شفاف طریقے سے ججوں کی تقرریاں کرنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون میں لکھا ہے چیف جسٹس جو نام بھیجے گا ان کو تعینات کیا جائے گا، آپ کو کتنی بار بلایا گیا ہے، لوگ دھکے کھا رہے ہیں، قانون کے مطابق ججوںکی تقرریاں کی جاتیں تو معاملہ یہاں تک نہ آتا۔ وزیر قانون پنجاب صہیب احمد نے کہا کہ قانون کے تحت ججوں کی تقرریاں ہوں گی۔ سرکاری وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حکومت نے راولپنڈی، لاہور، فیصل آباد میں ججوں کے تقرر کیلئے رجسٹرار کو خط لکھے، اے ٹی سی گوجرانوالہ، لیبرکورٹس میں ججوںکی تقرری کیلئے 3،3نام بھجوائے، قانون کی منشاء کے مطابق ججوں کے پینل کے نام بھجوائے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے ججوں کی تقرریوں کی بابت بار بار کیوں یقین دہانی کرائی؟۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہاکہ پراسیس مکمل کرنے کے بعد رجسٹرار ہائیکورٹ کو خط لکھا گیا۔ عدالت نے کہاکہ ہمارے لئے سیاستدان انتہائی قابل احترام ہیں، مجھے آپ لوگوں کو بلانے کا کوئی شوق نہیں، شوق ہوتا تو پہلے روز چیف منسٹر کو بلا لیتا۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ ہم بھی آپ کو محترم سمجھتے ہیں، پنجاب حکومت نے کمیٹی بنا دی ہے، آپ ججوںکا پینل دے دیں اس میں سے ججوںکا تقرر کر دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ چیف جسٹس حکومت کو ججوں کا پینل دے گا، آپ مجھ سے غیرقانونی مطالبہ نہ کریں، حکومت عملی طور پر ہمارے ساتھ تعاون کرے، ہم کسی ادارے سے لڑائی نہیں چاہتے ہیں، کس قانون کے تحت ججوں کے ناموں کا پینل آپ کو دوں، اگر قانون کے مطابق ججوں کی تقرریاں کی جاتیں تو معاملہ یہاں تک نہ آتا، آپ ججوں کی تقرریاں کریں، بے شک میرے ساتھ تعاون نہ کریں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اے ٹی سی ججز کی تقرری کتنے دن میں ہونی ہے، فیصلے کتنے روز میں ہونے ہیں؟۔ جس پر وزیر قانون پنجاب نے کہاکہ سات روز میں فیصلہ کرنا ضروری ہے، سیکرٹری قانون نے عدالت میں ججوں کی تقرری کا طریقہ کار اور قانون پیش کردیا۔ چیف جسٹس نے کہا وزراء کو طلب کرکے اچھا نہیں لگا، ہم بھی کیا کریں لوگ چیختے ہیں کہ فیصلے کریں، جج تعینات ہوں گے تو فیصلے ہوں گے، عدالت نے بروقت ججوں کا تقرر نہ کرنے پر مایوسی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کو حکومتی کمیٹی سے کنسلٹنٹ کی ضرورت نہیں، عدالت نے کہا انسداد دہشتگردی عدالتیں کیسز کا سات دن میں فیصلہ کرنے کی پابند ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ اگر اعتراض نہیں تو ججز تعینات کیوں نہیں کرتے؟ چیف جسٹس نے کہا 20 مئی تک آپ کو آخری موقع دیتے ہیں، آپ دوبارہ بات نہ دہرائیں مجھے سخت آرڈر کرنا پڑ جائے، یہ بھی فیصلے میں لکھوانا پڑے گا کہ حکومت اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کررہی ہے، آپ کو اگر کسی جج پر اعتراض ہے تو بتا دیں، سوموار سے آگے تاریخ نہیں دی جائے گی، پارلیمان کو بھی دیکھنا اور سوچنا چاہیے، اب زبانی کلامی بات نہ کی جائے بلکہ عملی اقدام کیا جائے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب کی سینئر وزیرمریم اورنگزیب نے کہا کہ عدالت نے بلایا تھا کہ اوپن کورٹ میں بات کریں، درخواست کی تھی کہ چیمبر میں بات کر لیتے ہیں لیکن اب سماعت ہو گئی ہے، پیر کا وقت دیا ہے امید ہے مفید سماعت ہو گی، ہم نے ہمیشہ ججوں اور عدالتوں کا احترام کیا ہے، ہم نے کبھی عدالتوں پر دھاوا نہیں بولا، یا اوئے کہہ کر نہیں پکارا، ہم نے احترام کے ساتھ گھنٹوں کھڑے ہوکر ناحق سزائیں بھی کاٹی ہیں، ہم نے ہمیشہ قانون کا احترام کیا ہے اس وجہ سے سرخرو ہوئے ہیں، ہمارے پاس منگل کو یہ کیس آیا ہم نے کام شروع کیا۔