بادی النظر میں توہین عدالت ہوئی، ادارے کو نشانہ نہیں بنانے دینگے: جسٹس فائز

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت پر شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تنقید کرنی ہے تو سامنے آ کر کریں۔ چیف جسٹس نے فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس کی تفصیلات طلب کر لیں۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ کیا آپ نے پریس کانفرنس سنی؟ توہین عدالت ہوئی یا نہیں؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مجھے جو ویڈیو ملی ہے اس کے متعلقہ حصے میں آواز نہیں تھی، کچھ حصہ خبروں میں سنا ہے۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ پریس کانفرنس توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے؟۔ کوئی مقدمہ اگر عدالت میں زیر التوا ہو تو اس پر رائے دی جا سکتی ہے؟۔ میرے خلاف اس سے زیادہ گفتگو ہوئی ہے لیکن نظرانداز کیا، میرے نظر انداز کرنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوچا کہ ہم بھی تقریر کر لیں، لیکن کیا آپ اداروں کی توقیر کم کرنا شروع کر دیں گے؟۔ ان کا کہنا تھا کہ وکلا، ججز اور صحافیوں سب میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں، برا کیا ہے تو نام لے کر مجھے کہیں ادارے کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے، ہوسکتا ہے میں نے بھی اس ادارے میں 500 نقائص دیکھے ہوں، کیا ایسی باتوں سے آپ عدلیہ کا وقار کم کرنا چاہتے ہیں؟ادارے عوام کے ہوتے ہیں، اداروں کو بدنام کرنا ملک کی خدمت نہیں، آزادی اظہار اور توہین عدالت سے متعلق آئین و قانون پڑھیں۔ اداروں میں کوتاہیاں ہوسکتی ہیں، میں کسی اور کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا، اگر میں نے کوئی غلط کام کیا ہے تو بتائیں، تنقید کریں، ہم ہر روز اچھا کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر عمل کر رہے ہیں۔ جس کے پاس دلائل ہوں گے وہ ہم ججز کو بھی چپ کرا دے گا، میں نے اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ ادارے کیلئے حلف لیا ہے۔ کیا چیخ و پکار کر کے اپ ادارے کی خدمت کر رہے ہیں؟ میں مارشل لاء کی توثیق کرنے والوں کا کبھی دفاع نہیں کروں گا، اگر میں نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کی سزا دیگر ججز کو نہیں دی جا سکتی، بندوق اٹھانے والا سب سے کمزور ہوتا ہے کیونکہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا، دوسرے درجے کا کمزور گالی دینے والا ہوتا ہے۔ایک کمشنر نے مجھ پر الزام لگایا، بھئی بتائو تو سہی چیف جسٹس کیسے دھاندلی کروا سکتا ہے؟ سارے میڈیا نے اسے چلا دیا، مہذب معاشروں میں کوئی ایسی بات نہیں کرتا اس لئے وہاں توہین عدالت کے نوٹس نہیں ہوتے، چیخ و پکار اور ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت ہے، تعمیری تنقید ضرور کریں لیکن تنقید کی ایک حد ہونی چاہیے۔ ان کے بعد ایک اور صاحب آگئے جن کا نام مصطفیٰ کمال ہے، انہوں نے بھٹو کا ذکر کیا، بھائی اگر ہم نے غلط کیا ہے تو بتائیں، بھٹو کے بارے میں آپ نے کیا کیا ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو کو ہم زندہ تو نہیں کر سکتے لیکن غلطی تو مان لی، صرف ایک کام کرنا ہے کہ ادارے کو بدنام کرنا ہے، آپ نے بڑی جدوجہد کر دی تقریر کر کے، لیکن بہتری کیلئے کوئی بھی تحریری طور پر نہیں جاتا، آپ نے تقریر کرنی ہے تو پارلیمنٹ میں کریں نا، پریس کلب کیوں؟ کیا کسی صحافی نے ان سے سوال کیا کہ یہاں کیوں بول رے ہیں؟ بس ان کو سامعین چاہیے، دونوں ہی افراد پارلیمنٹ کے ارکان ہیں تو ایوان میں بولتے، ایسی گفتگو کرنے کیلئے پریس کلب کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ پارلیمان میں بھی ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں کی جا سکتی، ہمیں پتا ہے ہمارا انڈیکس میں نمبر 137 یا جو بھی ہے۔ باپ کے گناہ کی ذمہ داری بیٹے کو نہیں دی جا سکتی، اسی عدالت نے مارشل لاء کی بھی آئینی توثیق کی ہے، اگر ایک ممبر قومی اسمبلی غلط ہے تو سارے پارلیمان کو غلط نہیں کہہ سکتے۔ گالیاں دینا مناسب نہیں، ہر چیز پر حملہ نہ کریں، آپ ادارے کو تباہ کر رہے ہیں، اگر توہین عدالت کی کارروائی چلائی تو کیس میں استغاثہ کون ہوگا؟۔ استغاثہ اٹارنی جنرل ہوں گے۔چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اب وزن آپ کے کندھوں پر ہے، کیا شوز کاز نوٹس ہونا چاہیے یا صرف نوٹس ہونا چاہیے؟ ملک کا ہر شہری عدلیہ کا حصہ ہے، جرمنی میں ہٹلر گزرا ہے وہاں آج تک کوئی رو نہیں رہا، غلطیاں ہوئیں انہیں تسلیم کر کے آگے بڑھیں، سکول میں بچے غلطی تسلیم کریں تو استاد کا رویہ بدل جاتا ہے۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال سے 2 ہفتے میں جواب طلب کر لیا۔ دونوں افراد کو نوٹس جاری کرتے ہیں، ہمارے منہ پر آ کر تنقید کر لیں۔سپریم کورٹ نے پیمرا سے پریس کانفرنس کی ویڈیو ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 5 جون تک ملتوی کر دی۔حکم نامے کے مطابق بادی النظر میں توہین عدالت ہوئی ہے، فیصل واوڈا اور مصطفی کمال اپنے بیانات کی وضاحت کریں۔عدالت نے پیمرا سے فیصل واوڈا کی 15 مئی،  مصطفی کمال کی 16  مئی کی پریس کانفرنسز کی ویڈیو ریکارڈنگ اور اردو متن طلب کرتے ہوئے قرار دیا کہ توہین عدالت کے الزامات کا سامنا کرنے والے دونوں افراد سے پریس کانفرنسز کے دوران پوچھے گئے سوالات اور ان پر دیے گئے جوابات کی تفصیل بھی طلب کرلی۔ چیف جسٹس ٰ نے ریمارکس دیئے اگر سکول میں کوئی بچہ غلطی کرکے تسلیم کرے تو استاد کا رویہ تبدیل ہو جاتا ہے، سب سے زیادہ باتیں میرے خلاف کی گئیں، میں نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا، ہماری تحمل مزاجی کو ستائش کی نظر سے دیکھنے کے بجائے زیادہ شدت نہیں آنی چاہیے، اداروں کی تضحیک نہیں ہونی چاہیے، ہم نے عدالتی امور میں شفافیت لائی ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد میں نے اپنے اختیارات کم کیے، عدالتی بنچز کی تشکیل میں شفافیت لائے ہیں،  اگر کسی کے پاس زیر التوا کیسز کم کرنے کی کوئی تجویز ہے وہ ہمیں بتا دے، چیخ و پکار اور ڈرانے دھمکانے سے کیا حاصل ہوگا، ہم خود ہی اپنی دشمنی کیلئے کافی ہیں، ہمیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت ہی نہیں۔ عدالت نے قرار دیا دو ہفتوں میں وضاحت دی جائے کیوں نہ توہین عدالت کی کارروائی کی جائے ۔ بعد ازاں مزید سماعت پانچ جون تک ملتوی کردی گئی۔

ای پیپر دی نیشن