اتوار ‘ 3 محرم الحرام ‘ 1434ھ 18 نومبر2012 ئ


حکومت ریلوے نہیں چلا سکتی تو لالو پرشاد کو دیدے : اتحادی متحدہ کی تجویز
کراچی میں اگر رقصِ ابلیس بند نہیں ہوتا تو اسے کس کے حوالے کیا جائے؟ متحدہ اس کی بھی کوئی تجویز دیدے۔ اس وقت ریلوے بحران سے زیادہ کراچی بحران پر قابو پانا ضروری ہے۔ ریلوے کو لالو پرشاد کے حوالے کر دیا جائے تو دفاعی شعبہ کہاں جائے گا؟ کیونکہ اگر آج ہی جنگ چھڑ گئی تو لالو پرشاد تو آپ کے ٹینک اور توپیں لیکر نہیں جائے گا، موجودہ وزیر ریلوے کی حب الوطنی پر بھی سوالیہ نشان ہے کیونکہ سرحدی گاندھی کے پیروکار تو پہلے ہی پاک بھارت کنفیڈریشن کے گیت گاتے ہیں۔بھارتی لالو پرشاد نے ریلوے چلانے کےلئے دوسری ٹرانسپورٹ بند کرا دی تھی جبکہ ہمارے پرشاد نے دوسری ٹرانسپورٹ چلانے کیلئے ریلوے کا ”بیڑہ غرق‘ کر دیا۔ عمر کے اس حصے میں پہنچ کر انسان ”ہیرا پھیری“ سے ویسے ہی توبہ کر لیتا ہے وزیر ریلوے نے پوری قوم کی توبہ کروا دی ہے لیکن خود اسی ”ڈگر“ پر ہیں۔ پیپلز پارٹی نے بھی بلور کو فری ہینڈ دیا ہوا ہے۔ موجودہ اتحاد ملکی اور سیاسی سے زیادہ کھانے پینے کا لگتا ہے، ہر کوئی ”وچوں وچوں کھائی جا¶ اتوں رولا پائی جا¶“ پر عمل پیرا ہے۔ قوم شکر کرے کہ ”حبس“ کے دن ختم ہو رہے ہیں لیکن آخری سانس ملک و قوم اور خزانے کو بہت بھاری پڑ رہے ہیں۔
٭....٭....٭....٭....٭
الیکشن جیت جا¶ں گا، باقیوں کا پتہ نہیں : چودھری احمد مختار ۔
پاکستان میں الیکشن کارکردگی کی بنیاد پر تھوڑا ہی جیتا جاتا ہے، یہاں تو بس ”جھرلو“ چلتا ہے، فرشتے ووٹ بھی ڈال جاتے ہیں اس کے باوجود اگر صندوقچی خالی رہے تو ”ڈنڈا“ اور ”لٹھ بردار“ ہنگامہ برپا کر کے اسے غائب کر دیتے ہیں۔ چوہدری صاحب قوم کو پانی و بجلی دیں یا انہیں تاریکیوں میں ڈبو دیں، پیپلز پارٹی اور (ق) لیگ کی ٹکٹ بندر بانٹ کے تحت تو وہ اکیلے ہی اس حلقے میں امیدوار ہوں گے۔ چوہدری وجاہت حسین کچھ عرصہ قبل ایک شادی میں گئے تو وہاں پر موجود ”بھنڈوں“ نے ان کا خوب استقبال کیا۔ چوہدری صاحب نے انہیں 500 کا نوٹ تھمایا تو ”میر عالموں“ نے کہا جناب ہمیں پانچ سو نہیں بلکہ وہ ”جھرلو“ دیا جائے جو الیکشن میں پھیر کر آپ اپنا ”اُلو“ سیدھا کرتے ہیں۔ بہرحال سیاستدانوں کے بارے تو یہی کہا جا سکتا ہے ....
جے ویکھے کارکردگی ولے کج نہیں ایہناں دے پلے
جے ویکھے جھرلو ولے تے بلے ہی بلے
جناب جس طرح آپ یقینی طور پر جیت جائیں گے باقی بھی بہار سے امیدیں باندھے ہوئے ہیں لیکن جیت کا جام لب تک آنے اور جشن منانے میں ابھی کچھ دیر ہے۔
٭....٭....٭....٭....٭
صدر زرداری کی گیلانی سے ملاقات، ایوان صدر واپس آنے کی درخواست!
کچھ دن قبل گیلانی صاحب کو دھمکیاں ملی تھیں، درحقیقت یہ گیلانی خاندان کے خلاف ایک سازش تھی انہیں ڈرا دھمکا کر سیاسی عمل سے دور رکھنے کی کوشش تھی۔ گیلانی کو رسوا کرنے میں کوئی کسر تو نہیں چھوڑی گئی، گیلانی کو ایوان صدر میں کہاں رہائش دی جائے گی؟ ذرا اس کا بھی تعین کر دینا تھا۔ گیلانی نے صدر کو ظہرانے میں تیتر، بٹیر کِھلا کر مہمان نوازی تو خوب کی، ساتھ ہی صدر نے پرانی باتیں بھلانے کیلئے ”سگار“ کے کش بھی لگائے۔ 20 منٹ کی ون ٹو ون ملاقات میں بہت کچھ طے ہو گیا ہو گا کیونکہ یار لوگ تو آنکھوں ہی آنکھوں میں بہت کچھ کر لیتے ہیں۔ زرداری صاحب روٹھے ہو¶ں کو منانے کے تو گرو ہیں، کیا ہی اچھا ہو اگر بابر اعوان کو بھی سینے سے لگا لیا جائے۔ ناراضگی کے بعد بہت آزمائشیں آئیں لیکن بابر اعوان نے بھی ضمیر بیچا، آشیانہ بدلا نہ ہی تکلیفوں کا اظہار کیا۔ گیلانی تو ایسے ناراض ہوئے جیسے بہو ساس سے لڑ کر میکے چلی جاتی ہے۔ پھر سُسرالیوں کا لا¶ لشکر آ کر اس کے شکوے شکایات دور کرتے ہیں اور یوں باہم شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔ پتہ نہیں چلا کہ گیلانی کے ناز و نخرے بہو جیسے ہی تھے یا کچھ فرق تھا، چند دنوں تک کانوں ہی کانوں میں طے ہونے والے وعدے سامنے آئیں گے۔ ایوان صدر ماشاءاللہ آدھے اسلام آباد جتنا رقبہ گھیرے ہوئے ہے تو جناب گیلانی کو کسی راہداری میں مت بٹھا دینا اور کچھ نہیں تو موسیٰ پاک کی مجاوری کا ہی خیال رکھ لینا اور اُٹھنے بیٹھنے کیلئے کوئی اچھی جگہ دے دینا۔
٭....٭....٭....٭....٭
گوشت کھانے والے جھوٹے، بددیانت اور چور بن جاتے ہیں۔ بھارت کے سکول کی درسی کتاب میں شامل سبق ۔
 یہ جاہلانہ سوچ اور بچگانہ تحقیق ہے، ہندو قوم اگر گائے کا گوشت کھائے تو اس کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے، دن میں تارے نظر آئیں وہ بھی ایک کے بجائے چار چار۔ قصہ مشہور ہے کہ کسی جج نے ایک مسلمان، ایک ہندو اور ایک سکھ کو سزائے موت کا حکم سُنا دیا، حسبِ قاعدہ جلاد نے مسلمان کی آخری خواہش پوچھی تو اس نے کہا دو رکعات نماز نفل ادا کرنا چاہتا ہوں۔ نماز کے بعد وہ تختہ دار پر آیا تو اتفاق سے تختہ خراب ہو گیا اور پھانسی دینے کا ٹائم ختم ہو گیا، سکھ نے کہا مجھے گورونانک کی تصویر کے سامنے اپنی مراد پیش کرنی ہے جب وہ واپس آیا تو اتفاق سے تختہ خراب ہو گیا اور پھانسی کا ٹائم ختم ہو گیا یوں وہ بھی بچ نکلا، جب ہندو کی باری آئی اس سے بھی آخری خواہش پوچھی گئی اس نے جھنجھلا کر کہا ”آخری خواہش کو گولی مارو پہلے پھانسی کے پھندے کو ٹھیک کر لو“ ۔
اگر گوشت کھایا ہوتا تو کہہ دیتا کہ جناب مجھے ”دریائے گنگا“ لے جا¶ اپنی مراد وہاں پیش کروں گا۔ جھوٹ بولنے والے تو روزہ رکھ کر بھی بول لیتے ہیں ان کا جھوٹ تو ویسے حلق سے اوپر ہوتا ہے روزہ تو جناب تب ٹوٹے گا جب کوئی چیز حلق سے نیچے اترے گی، ایسے لوگوں کا ایمان تقریباً اس شاعر جیسا ہو گا جس نے پوچھنے پر کہا تھا کہ جناب آدھا مسلمان ہوں شراب پی لیتا ہوں لیکن خنزیر کا گوشت نہیں کھاتا۔

ای پیپر دی نیشن