غزہ میں اسرائیل کی تیسرے روز بھی جارحےت جاری رہی۔تین دن میں فلسطینیوں کی شہادتوں کی تعداد 50 اور زخمیوں کی 200 کے قریب ہو گئی ہے۔ اسرائیلی فضائیہ نے 255 مقامات کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی فوج کے توپخانے، ایف 16 طیاروں اور ٹینکوں کے ذریعے غزہ پر بمباری کی گئی جس سے کئی مکانات بھی تباہ ہو گئے۔ اسرائیلی وزیراعظم بےنجمن نیتن یاہو نے دھمکی دی ہے کہ ہم اپنے شہریوں کی حفاظت کیلئے سب کچھ کرینگے اور کارروائی جاری رہے گی۔ اپنے اہداف کے حصول کیلئے زمینی کارروائی بھی کرینگے۔ ادھر مصر کے وزےراعظم ہاشم قندےل اسرائےلی حملوں کےخلاف فلسطےنےوں سے اظہار ےکجہتی کے لئے غزہ پہنچ گئے ہیں۔ اس دوران بھی اسرائےلی بمباری جاری رہی۔ دوسری طرف وےنزوےلا کے صدر ہوگو شاوےز نے اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے انسانےت کا قتل قرار دےا اور اسے امرےکی بربرےت کا شاخسانہ کہا ہے۔ دریں اثناءوزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو مصر کے صدر محمد مرسی نے ٹیلی فون کیا۔ دونوں رہنماﺅں نے غزہ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ مصر کے صدر نے غزہ کی صورتحال پر سلامتی کونسل میں پاکستان سے مدد کی اپیل کی۔ مصری صدر نے کہا کہ سلامتی کونسل میں فلسطین کا مسئلہ اٹھایا جائے تو پاکستان حمایت کرے۔ وزیراعظم پرویز اشرف نے کہا کہ فوج اتارنے کی اسرائیلی دھمکی تشویشناک ہے۔
غزہ کی پٹی اسرائیلی فوج کے محاصرے میں ہے۔اس پٹی کے فلسطینی باسیوں کواسرائیل نے انسانی حقوق سے یکسر محروم کر رکھا ہے۔یہاں بیمار اور بوڑھے فلسطینیوں کو ادویات میسر ہیں نہ معصوم بچوں کو دودھ دستیاب ہے۔ایک طرف اسرائیل خود غزہ میں بنیادی انسانی ضرورتیں فراہم کرنے سے انکاری ہے دوسری طرف وہ عالمی برادری کی امداد کو مظلوم فلسطینیوں تک پہنچنے کی راہ بندوق سے روک رہا ہے۔ 2010 میں ترکی کی قیادت میں امداد ی سامان لے کر فلوٹیلا غزہ کی طرف رواں تھا کہ ساحل پر پہنچنے سے قبل اس پر اسرائیل نے بمباری کرکے 18افراد کی جان لے لی ۔غزہ کے باسیوں پر اسرائیل کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف عالمی ردّعمل نے ایک انگڑائی ضرور لی جس کا جہاں اسرائیل نے کوئی نوٹس نہ لیا وہیں عالمی برادری بشمول عرب لیگ اور اوآئی سی اسرائیل کے اس ظالمانہ اقدام کے خلاف اجتماعی آواز بلند اور اسرائیل کو محاصرہ ختم کرنے پر مجبور کرنے سے قاصر رہی۔ البتہ انفرادی طورپر ترکی ،ایران اور مصر کی نئی قیادت نے اپنی حیثیت کے مطابق اسرائیل کی مذمت ضرور کی۔ اب معاملہ اسرائیل کی طرف سے غزہ کے محاصرے کے بعد نہتے فلسطینیوں پر بمباری تک آپہنچا ہے۔ عالمی برادری خصوصی طورپر 57اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے اپنے قیام کے بعد اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم کانوٹس لیا ہوتا تو فلسطین آج آزاد نہ بھی ہوا ہوتا۔توبھی اسرائیل کو یوں فلسطینیوں کا خون بہانے کی جرا¿ت نہ ہوتی۔کمزوری خود طاقتور کو جارحیت کی دعوت دیتی ہے....ع
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
ستاون اسلامی ممالک متحد ہوں تو ان سے بڑی دنیا میں کوئی طاقت اور سُپر پاور نہیں ہوسکتی۔افسوس کہ اُمہ کے درمیان نہ صرف اتحاد کا فقدان ہے بلکہ مسلمانوں کو انتشار میں مبتلا رکھنے کی خواہش رکھنے والی قوتوں کی انگیخت پر مسلم ممالک ایک دوسرے کو دشمن قرار دیکر اپنے وسائل اور افراد کو جنگوں میں جھونک دیتے ہیں۔ ایسے ممالک جن کو خود اپنے مفادات کا احساس اور اپنے دوست و دشمن کی تمیز نہیں ان کے اُمہ کیلئے مفادات اور احساسات کے حوالے سے کیا جذبات ہوسکتے ہیں؟ مسلم اُمہ کا سب سے بڑا دشمن اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد کے حوالے سے سوچ کا فقدان ہے جس کا ہمیشہ اسلام دشمن قوتوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔
آخر کب تک مسلم اُمہ بے حسی اور لا تعلقی کا رویہ اپنائے رکھے گی اور دنیا بھر میں مسلمان ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہیں گے،آخر کب تک فلسطین اور کشمیر میں خون کی ہولی کھیلی جاتی رہے گی،آخر کب تک بھارت اور اسرائیلی کویہ کھلی چھٹی دی جاتی رہے گی کہ وہ مسلمانوں کی نسل کشی ،خواتین کی بے حرمتی کرتے رہیں۔آخر کون ظالم کا ہاتھ روکے گا؟ کیا آج عالم اسلام میں ایک بھی محمد بن قاسم نہیں جو کسی مظلوم کی آہ و بکا سن کر میدان عمل میں اترے ۔یہ بے حسی بے عملی اورلا تعلقی ہی ایسے عناصر ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کی دنیا میں تذلیل کی جارہی ہے۔اسرائیل کی طرف سے غزہ کی پٹی پر فضائی حملے اور شہادتیں عالم اسلام کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔
انسانی حقوق کی پامالی کیا مغرب کے انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کو نظر نہیں آتی۔آج اقوام متحدہ کیوں خاموش ہے؟57 اسلامی ملکوں کے نمائندے اس عالمی فورم پر بیٹھ کر آخر کیا کررہے ہیں۔ امریکہ کے خوف سے اس کھلے قتل عام پر آواز بلند نہ کرنا یقینا بے غیرتی کے زمرے میں آتا ہے ۔ایک طویل عرصے کے بعد پاکستانی وزیراعظم اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی طرف سے اس کھلی اسرائیلی دہشت گردی کی مذمت کرنا یقینا ایک حوصلہ افزا امر ہے مگر حیرت اور دکھ کی بات تو یہ ہے کہ او آئی سی اور عرب لیگ جیسے نمائندہ اداروں نے مجرمانہ چپ سادھ رکھی ہے۔عالم عرب میں حالیہ تبدیلیوں اور اسکے نتیجے میں ہونے والی پیش رفت کے باعث مصر کے صدر محمد مرسی کا واشگاف الفاظ میں اسرائیل کی مذمت کرنا اور اپنے وزیراعظم کو غزہ کے دورے پر روانہ کرنا یقینا جرا¿ت مندانہ اقدام ہیں۔ مصری صدر عنقریب پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں۔ڈی ایٹ سربراہی اجلاس کے باعث دیگر مسلم رہنما بھی اسلام آباد میں ہونگے جس میں ایران کے صدر احمدی نژاد بھی شامل ہیں۔ان رہنماﺅں کو موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل کی نہ صرف مذمت کرنا ہوگی بلکہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلا کر وہاں ایک مشترکہ قرارداد پیش کی جائے جس کے ذریعے اسرائیل کو اپنے صہیونی رویے سے روکاجاسکے۔امریکہ سے اب ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ نہ صرف اقتصادی طورپر زوال پذیر ہے بلکہ اندرونی خلفشار کا بھی شکار ہے ۔صدارتی انتخابات کے بعد 20ریاستوں نے علیحدگی کی پٹیشن داخل کی تھی یہ تعداداب32 ہوچکی ہے۔ ویسے بھی عراق کے بعد افغانستان میں شکست و ریخت سے دوچار ہونے کے بعد امریکہ اسرائیل کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کیلئے مجبور ہوتاجارہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم صدر اوباما سے ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ صرف الفاظ کی حد تک اسرائیل کی مذمت کرنا اسے کبھی اپنے ظلم و ستم سے نہیں روک سکے گا۔اس وقت عملاً کچھ کرنے کی ضرورت ہے امریکہ کے اندرونی خلفشار کے باعث اسرائیل جلدتنہائی کا شکار ہوجائیگا یہی عالم اسلام کے اتحاد کابہترین اور سنہری موقع ہے جسے ضائع کرنیکی سزا آئندہ نسلوں کوتادیر بھگتنا ہوگی۔
وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف کی مصری صدر محمد مرسی کے ساتھ فون پرگفتگو حوصلہ افزا اور قوم و ملت کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے جس میں راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ پاکستان غزہ پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اسرائیلی فضائی حملے عالمی قوانین اور انسانی اقدار کے خلاف ہیں۔ مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن ممکن نہیں۔ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ فلسطین کو اٹھائے گا۔ اگر دیگر ممالک کے سربراہان ایسے ہی جذبات کا اظہار کریں اور اُمہ کے دکھ،درد مسائل اور مصائب کو اپنا سمجھیں تو کوئی بات نہیں کہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کو استعماری طاقتوں کے پنجہ استبداد سے نجات نہ مل سکے۔