سید نصیب اللہ گردیزی
27 جولائی 1946ءکو میر واعظ منزل سرینگر میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا کنونشن منعقد ہُوا جس میں رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس کو جماعت کا صدر اور آغا شوکت علی کو جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ 24 اکتوبر 1946ءکو آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا 15واں سالانہ اجلاس سری نگر میں منعقد ہوا جس میں پہلے کنونشن میں کئی گئی قراردادوں کی توسیع کی گئی۔ اِسی رات چوہدری غلام عباس کو ان کے چند ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔ یہ اسیری 28 فروری 1948ءکو ختم ہوئی جب انہیں جموں جیل سے سیالکوٹ کی سرحد سوچیت گڑھ لا کر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس اسیری کے دوران ہی پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ یاد رہے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے ایک موقع پر یہ فرمایا تھا کہ اگر میرے کوئی جانشین ہوں گے تو وہ نواب بہادر یار جنگ اور چوہدری غلام عباس ہوں گے۔ آزادی¿ کشمیر کا جہاد شروع ہُوا اور صوبہ جموں کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی جس میں چوہدری صاحب کے بچے بھی ستم رانیوں کا شکار ہوئے۔ مہاراجہ کشمیر مجاہدین کی یلغار سے خوفزدہ ہو کر سرینگر سے بھاگ کر اپنی جنم بھومی جموں پہنچ گیا۔ ہندوو¿ں اور انگریزوں کے مشترکہ پلان کے تحت بھارتی فوج بھی جموں پہنچ گئی اور مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ ہزاروں کی تعداد میں عورتوں کو اغوا کیا گیا جس میں چوہدری غلام عباس کی بچی بھی شامل تھی۔ مسلمانوں کی املاک کو نظر آتش کیا گیا اور ان کی عمر بھر کی جمع پونجی لوٹ لی گئی۔ جموں میں یہ اعلان کیا گیا کہ مسلمان جو پاکستان جانا چاہتے ہیں وہ جموں کے قریب ایک میدان میں جمع ہو جائیں تو ان کو باحفاظت روانہ کیا جائے گا۔ لاکھوں کی تعداد میں مسلمان باامر مجبوری جموں کے قریب جمع ہوئے۔ 4، 5 اور6 نومبر 1947ءکو ان کا قتل عام شروع کیا گیا اور 3 لاکھ کے قریب مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا اور تقریباً 3 لاکھ سے زائد مسلمانوں کو بے سرو سامانی کے عالم میں پاکستان دھکیل دیا گیا۔پاکستان میں بسنے والے کشمیری تقریباً 50 کے قریب قومی اسمبلیوں کے حلقہ جات میں اثرو رسوخ رکھتے ہیں اور الیکشنوں میں اپنے ووٹ کی پرچی کے ذریعے فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہوئے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ اسی طرح آزاد کشمیر اسمبلی کے 12 ممبران پاکستان سے منتخب ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ کشمیری دنیا میں واحد قوم ہے جن کو دوہرے ووٹ کا حق ہے۔ وہ پاکستان میں بھی ووٹ کاسٹ کرتے ہیں اور آزاد کشمیر میں بھی۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کا فریق ہے اور کشمیریوں کا وکیل بھی۔ عوام نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بھاری مینڈیٹ سے کامیاب کروایا اور نواز شریف تیسری مرتبہ بھاری اکثریت سے ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ اُن کے انتخاب کے بعد مجھے مقبوضہ کشمیر کی حریت قیادت کے مبارکباد کے فون آئے انہوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ محمد نواز شریف کے دورِ حکومت میں مسئلہ کشمیر کے حل ہونے میں پیشرفت ہونی چاہئے کیونکہ وہ خود بھی کشمیری النسل ہیں ہمیں ان سے بہت سے توقعات ہیں۔مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کے مطابق حل کیا جانا اشد ضروری ہے۔ شملہ معاہدے کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین بے شمار مذاکرات ہوئے جن کا 40 سال گزرنے کے باوجود کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ بھارت مذاکرات کا ڈھونگ رچا کر اپنے مفادات کی تکمیل کر رہا ہے۔ سیز فائر لائن پر خاردار تاریں لگا کر ایک ہی قوم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ پاکستان کی طرف بہنے والے دریاو¿ں کا رُخ موڑ کر پاکستان کو بنجر بنانا چاہتا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے پاس واحد راستہ اقوام متحدہ کا ازسرِنو دروازہ کھٹکھٹانا ہے۔