پاکستان اور افغانستان گہرے تاریخی ثقافتی اور بالخصوص مذہبی اور دینی رشتوں میں پیوسط دو مسلم ممالک ہیں۔ مگر بدقسمتی سے گذشتہ کرزئی حکومت پاکستان دشمن قوتوں کی زبان بولتی رہی۔ پاکستان کے عوام اور تقریباً تمام حکومتوں نے افغانستان کے ساتھ ہمیشہ ایثار و قربانی اور ہمدردی کا رویہ اپنائے رکھا، مگر نہ جانے کیوں سرحد کی دوسری طرف سے ہمیشہ پھولوںکے جواب میں کانٹوں کا تحفہ ملتا رہا۔ افغانستان پر روسی استعمار نے یلغار کی تو پاکستان کے عوام و خواص حتیٰ کہ افواج بھی محاذ جنگ پر افغان بھائیوں کے شانہ بشانہ میدان میں اتر آئی۔ ضیاءالحق مرحوم نے پوری توانائیاں افغان جنگ میں روس کے خلاف جھونک دیں۔
جنرل اختر عبدالرحمن کو باقاعدہ اس جنگ کا ہیرو سمجھا جاتا تھا جو ضیاءالحق کے طیارے میں بہاولپور سے واپسی پر ملک دشمن قوتوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بن گئے۔ پاک فوج اور عوام نے افغان بھائیوں کی مدد سے دوسری بڑی عالمی قوت کو شکست سے دوچار کیا تو مجاہدین اسلام کا رعب دوسری عالمی طاقتوں کے لئے خطرے کا نشان بن گیا۔ خصوصاً امریکی استعمار کو ابھرتی ہوئی اسلامی قوت سے خطرے کی بو آنے لگی چنانچہ اس نے اپنے ”قومی و ملی“ مفادات کی خاطر فوراً یوٹرن لیا۔ اسامہ جیسے لوگوں پر روس دشمنی میں امریکی عنایات کی بارش ہوتی تھی وہی امریکی دشمنی کی علامت بن گئے۔ صاف ظاہر ہے یہ بدلتی ہوئی صورتحال پاکستان کے لئے بھی اچھی خاصی مشکل گھڑی تھی۔ امریکہ کی مدد سے دنیا بھر سے آئے ہوئے مجاہدین کا میزبان تو پاکستان تھا جو اسلامی رشتہ کے تقدس اور امریکی مفادات کے تعلق کے درمیان پھنس کر رہ گیا۔
پاکستان ہمیشہ افغانستان کی سرزمین کو غیروں کے ہاتھوں اپنے خلاف استعمال ہونے کے خدشے سے بچنے کی کوشش میں جذبہ خیر سگالی اور نرم رویوں کو ترجیح دیتا رہا مگر افغانستان کی سرزمین رشین استعمار سے آزادی کے فوراً بعد امریکی اور بھارتی استعمارکے ہاتھوں استعمال ہونے لگی۔ اس وقت ہمارے شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں جتنی بھی ملک دشمنی کارروائیاں ہورہی ہیں ان کے مہرے افغانستان میں بیٹھے ہیں جن کے روابط بھارتی ایجنسیوں کے ساتھ ہیں۔
پاکستان نے 40 سال سے افغان مہاجرین کی بہت بڑی تعداد کا بوجھ برداشت کیا۔ عوام نے اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کی مگر پاکستانی عوام کو جواب میں کلاشنکوف کلچر، ہیروئن، خودکش دھماکے اور فاٹا وزیرستان میں افغان بمباری کے تحفے ملے۔ اس میں شک نہیں کہ ہماری فوجی اور سیاسی قیادت بھی اس قومی جرم میں برابر کی شریک رہی ہے مگر گذشتہ 40سال سے پاکستان کی قومی معیشت پر افغان ایشو ایک حساس مسئلے کے طور پر سوالیہ نشان کے طور پر موجود رہا ہے۔
اب خدا خدا کرکے افغانستان کے حالیہ صدارتی انتخابات میں نسبتاً معتدل اور پڑھی لکھی قیادت سامنے آئی ہے۔ نئے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کرزئی حکومت میں وزیر معاشیات رہے اور انہوں نے اعلیٰ تعلیم امریکہ اور یورپ کے اداروں میں حاصل کررکھی ہے جس بناءپر ان کے رویے میں جمہوریت پسندی اور انسانی حقوق کی پاسداری جیسے معاملات کی اہمیت نظر آرہی ہے۔ انہوں نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں حقیقی ہمسایہ کے طور پر پاکستان کی قدرتی اہمیت کا بھی اعتراف کیا ہے اور دونوں ممالک میں حقیقی جمہوریت کے فروغ کی اہمیت کا اظہار بھی کیا ہے۔ وہ گذشتہ روز اسلام آباد تشریف لائے تو انہیں سربراہ مملکت کے طور پر شاندار پروٹوکول سے نوازا گیا۔ وہ اس دورہ پاکستان میں صدر ممنون حسین، وزارت خارجہ اور وزیراعظم سے ملاقات خوشگوار ملاقات کرچکے ہیں جبکہ پاکستان سے صدر مملکت سمیت مشیر خارجہ شوکت عزیز، جنرل راحیل شریف اور نواز شریف مختلف مواقع پر افغانستان کا دورہ کرچکے ہیں۔ یاد رہے کہ وہ پاکستان آنے سے قبل چین کا دورہ کرکے آئے تھے، چینی قیادت نے انہیں خطے میں اہم کردار ادا کرنے کا اشارہ دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ چین نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو افغانستان کے معاملات میں بے جا مداخلت سے روک دیا ہے۔
ان عالمی اور علاقائی مسائل کے پیش نظر پاکستان کو افغانستان کے ساتھ نئے سرے سے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ اس سال کے آخر میں حسب وعدہ امریکہ اور نیٹو کی افواج بھی افغانستان سے نکل جائیں گی جس کے بعد دونوں ممالک کی ذمہ داریوں میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ پاکستان نے بجا طور پر افغانستان پولیس فوج اور دیگر شعبوں میں تربیت کی پیشکش کی ہے۔جس کا بڑا مقصد افغانستان کو بھارتی تسلط سے آزاد کرکے اپنے ساتھ اعتماد کی فضاءمیں برابری کی سطح پر لانا ہے۔
دونوں ممالک کو خطرناک مذہبی دہشت گردی کا سامنا ہے اور دونوں ”طالبان“ کی کاروائیوں سے تنگ آچکے ہیں۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ دونوں مشترکہ حکمت عملی اپناتے ہوئے پرامن معاشرتی استحکام کی طرف بڑھیں۔ افغان طالبان پاکستان طالبان سے قدرے مختلف ہیں۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں قابل رشک امن اور معاشی بہتری کی فضاءقائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔ یہ تو اسامہ کے مسئلے پر امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے کی سزا تھی جس سے آج تک افغان عوام نبرد آزما ہے۔ اب اگر طالبان نے سیاسی دھارے میں آنے کی خواہش ظاہر کی ہے تو یہ وقت کی اہم ترین سیاسی و مذہبی ضرورت کی تکمیل ہوگی۔
افغانستان کے طالبان اگر سیاسی دھارے میں آجاتے ہیں تو صاف ظاہر ہے پاکستان طالبان کو بھی اپنی معاندانہ اور ملک دشمنی سرگرمیوں پر غور کرنا پڑے گا۔ اس کے لئے پاکستان اور افغان حکومت سنجیدگی سے اقدامات اٹھائے ورنہ دین دشمن عالمی استعماری قوتیں درمیان میں آکر فساد کھڑا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔ ڈاکٹر اشرف غنی اگر افغان طالبان کیساتھ مصالحت میں کامیاب ہوگئے تو ان کا نام اور کام نہ صرف افغانستان میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا بلکہ پاکستان سمیت خطے کی دیگر قوتوں کے لئے بھی باعث اطمینان ہوگا۔ ان سے بجا طور پر افغانستان پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کے عوام یہ توقع رکھتے ہیں کہ بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں زخموں سے چور چور افغانستان کو داخلی اور خارجی دہشت گردی سے پاک کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں گے۔