تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے

تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارے پیار ے نبی کے قریبی اور پیارے صحابی گھوڑے پر سوار ہو کر کہیں تشریف لے جا رہے تھے کہ راستے میں ایک کافر نے آپؓ کا راستہ روک کر پوچھا اے صحابی محمد! بتائے کہ گھوڑے کی کتنی ٹانگیں ہیں، کافر کا سوال سن کر گریٹ صحابی گھوڑے سے نیچے اترے اور ایک ایک کر کے گھوڑے کی چار ٹانگیں گنوائیں اور فرمایا ”چار ہیں“ اور دوبارہ گھوڑے پر سوار ہو کر آگے بڑھ گئے۔ دوستوں عزیزوں نے پوچھا۔ اے اللہ کے رسول کے پیارے صحابیؓ! آپ نے گھوڑے سے نیچے اتر کر ایک ایک ٹانگ کیوں گنوائی کافر کو جواب تو گھوڑے پر بیٹھ کر بھی دے سکتے تھے؟ عظیم صحابی نے جواباً فرمایا۔ لوگوں کو بتانے کیلئے کہ بغیر دیکھے اور سنے کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے آپ کی ہر بات اور رائے میں دلیل اور ثبوت ہونے چاہئے کیونکہ ثبوت کے بغیر کچھ فرمانے کا اختیار اور حق صرف میرے اللہ کے پاس ہے کسی انسان کے پاس نہیں“۔ حسب بالا واقعہ کے ذریعے صرف مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ اہل دنیا کو درس دیا گیا ہے کہ ثبوت کے بغیر قائم کی جانیوالی رائے اور کہی جانےوالی بات اکثر شرمندگی کا باعث بنتی ہے اسی لئے تو صاحب الرائے شخص اس انسان کو تصور کیا جاتا ہے جو دلیل اور ثبوت کے بغیر بات نہ کرتا ہو۔دوستو! مذکورہ صحابی رسول کا واقعہ میری والدہ مرحومہ سنایا کرتی تھیں اس واقعہ نے میری ذات کو اسقدر متاثر کیا ہوا ہے کہ میں ثبوت اور دلیل کے بغیر کہی گئی کسی بھی بات پر یقین نہیں کرتا جبکہ ان سنی اور ان دیکھی باتیں کر دینا ہمارے اکثر سیاستدانوں کا مشغلہ ہے۔ وہ دیکھے سنے بغیر مخالفین کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جنہیں چیلنج کیا جانا چاہئے لیکن ہمارے یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے کہ سیاسی و صحافتی مخالفین کی پگڑیاں اچھال دی جاتی ہیں اور وہ بھی ثبوت پیش کئے بغیر مگر کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ تصویر کا صرف ایک رخ دکھائے جانے کا رواج ہے ۔ تصویر کے دونوں رخ دیکھنے کے بعد ہی کوئی حتمی رائے قائم کرنی چاہئے۔ مجھے فخر ہے اپنی 40 سالہ صحافتی زندگی پر کہ میں نے اپنی کسی تحریر میں جھوٹ منافقت اور سنی سنائی کا سہارا نہیں لیا جب تک میں نے کسی واقع یا ایشو کا خود جائزہ نہیں لیا اسے نوک قلم پر نہیں لایا ہمیشہ سچ بولا اور بیان کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مجھے آج تک اپنی کسی تحریر پر شرمندہ ہونا نہیں پڑا تردید نہیں کرنی پڑی دوستوں سے گذارش ہے کہ کالم کا اگلا حصہ اس تناظر میں پڑھا جائے۔نوائے وقت میں چھپنے والی ایک خبر کیمطابق مشیر وزیراعلیٰ پنجاب و چیرمین PIC خواجہ احمد حسان نے PIC ڈاکٹر فیکلٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بورڈ آف مینجمنٹ اور ڈاکٹرز ہسپتال کے معیار کو بلند کرنے کیلئے ایک ٹیم کی طرح کام کرینگے ہم pic کو ایک مرتبہ پھر نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان کا بہترین ہسپتال بنائیں گے جس میں عوام الناس کے علاج معالجے کے حامل معیار کی سہولتیں فراہم کی جاسکیں۔خواجہ احمد حسان کا بیان پڑھ کر میں یہ بات ببانگ دہل کہنے کو تیار ہوں کہ خواجہ صاحب کو پوری تصویر نہیں دکھائی گئی اگر وہ پوری تصویر دیکھ لیتے تو بورڈ کے اجلاس کی خبر میں یہ جملہ بھی شامل ہوتا کہ چیئرمین نے مریضوں کو رلانے اور خوار کرنیوالے فلاں فلاں صاحب یا صاحبہ کو فارغ یا ٹرانسفر کر دیا ہے کیونکہ ہر سرکاری ادارے کی طرح pic میں بھی بے شمار کالی بھیڑ بھی موجود ہیں جن کے ہوتے ہوئے pic کو پاکستان کا بڑا ہسپتال تو بنایا جاسکتا ہے مگر کامیاب نہیں۔ ایمرجنسی کا وزٹ کرنے پر روزانہ درجنوں مثالیں مل سکتی ہےں کہ ڈاکٹروں و نرسوں کی بے حسی، لاپروائی، اور غفلت کے باعث کئی مریض موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ مریضوں کے حساس ٹیسٹ کرنیوالی اکثر مشینیں خراب پڑی ہیں اور غریب و متوسط لوگ اپنے مریضوں کے ٹیسٹ پرائیویٹ کرانے پر مجبور ہیں ۔یقین کیجئے کہ یہاں کے سینئر ڈاکٹروں اور پروفیسروں عام مریض کو چیک کرنا ہتک عزت سمجھتے ہیں اور امیر و سرمایہ دار مریض کو سرآنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔
 خواجہ حسان اور پروفیسر بلال زکریا کا کہنا بجا ہے کہ دیگر سرکاری ہسپتالوں کو روکاجائے کہ وہ اپنے مریضوں کو pic میں ریفرنہ کریں ایسا کرنے سے بھی فرق پڑسکتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ شریف انسان یا ایڈمنسٹریئر ڈنڈا نہیں چلا سکتا اگر ڈنڈا نہیں چلے گا تو حالات تبدیل نہیں کئے جاسکتے۔ خواجہ سلیمان رفیق کی شرافت اور مریض درستی سے کون واقف نہیں سب جانتے ہیں کہ دوریش صفت انسان ہیں۔ خواجہ احمد حسان کا شمار بھی شریف لوگوں میں ہوتا ہے۔ pic کے ہیڈ ماسٹر پروفیسر بلال زکریا کافی زیادہ اوور لوڈ نظر آنے لگے ہیں شکل وصورت سے ہی تھے ہوئے شریف انسان لگتے ہیں۔ ان مذکورہ افراد کی شرافت ہی تو صورتحال کو بہتری کی طرف نہیں لے جارہی۔مجھے معلوم ے کہ وزیراعلی شہباز شریف مریض دوست انسان ہیں وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ سفید پوش مریض مریں۔ میرے نزدیک خادم اعلیٰ کی کوئی بھی ترکیب اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک pic میں ڈانڈا نہیں چلتا۔


ای پیپر دی نیشن