”علامہ اقبال کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے؟“

اگرچہ اس ضمن میں ان کی متعدد تقاریر اور تحریروں سے بھی اس پر روشنی پڑتی ہے تاہم قائداعظم کے نام قلمبند کئے گئے خطوط اس ضمن میں اساسی حوالہ کی حیثیت اختیار کر جا تے ہیں مئی 1936ءنومبر 1837ءکے درمیان قلمبند کئے گئے 14 خطوط ان معنی میں یکطرفہ ہیں کہ قائداعظم کے جوابات مفقود ہیں، تاہم مسلم لیگ اور پاکستان کے نقطہ نظر سے ان میں خاصہ اہم مواد ملتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ جداگانہ وطن کا تصور پیش کر نے کے بعد قلمبند کئے جانے کی وجہ سے ان خطوط کی سیاسی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ 1942ءمیں جب ان انگریزی خطوط کا مجموعہ مرتب ہوا تو اس کا دیباچہ قائد اعظم نے تحریر کیا اسی سے یہ اندا زہ لگایا جا سکتا ہے کہ قائد اعظم ان خطو ط کو کتنی اہمیت دیتے تھے۔ذیل میں ان خطو ط سے منہ بولتی چند سطریں بلا تبصرہ پیش کرتا ہوں:” ہندوستان کے اندر اور باہر کی دنیا پر اس امر کی وضاحت از حد ضروری ہے کہ اس ملک میں محض معاشی مسئلہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کے نقطہ نظر سے تہذیبی مسئلہ ہندوستان کے بیشتر مسلمانوں کے لئے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کم از کم اسے معاشی مسائل سے بلحا ظ اہمیت کسی طرح سے بھی کمتر نہیں قرار دیا جا سکتا۔ میں ہندوو¿ں پر یہ حقیقت واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ان کی سیا سی چالیں خواہ وہ کتنی تکلیف دہ ہی کیوں نہ ہوں ہند کے مسلمانوں کو اپنے تہذیبی تشخص سے باز نہیں رکھ سکتیں۔“ (20 مارچ 1937ئ)”اسلامی قوانین کے طویل اور محتاط مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر ان قوانین کو صحیح طور سے سمجھ کر بروئے کار لایا جائے تو کم از کم ہر شخص کی بنیادی احتیا جات پوری کر نے کی ضمانت دی جا سکتی ہے لیکن اسلامی شریعت کا نفا ذ اور اس کی نشوونما ایک مسلم مملکت یامملکتوں کے قیام کے بغیر ناممکن ہے۔ کئی برسوں سے میرا یہ ایماندارانہ عقیدہ رہا ہے اور اب بھی میں اسے درست جانتا ہوں کہ مسلمانوں کے لئے روٹی اور ہندوستان کے لئے امن و امان اسی طرح سے حا صل کیا جا سکتا ہے۔“ (24 مئی 1937ئ)”.... لیکن ان لوگوں کے ایسے حقوق تسلیم کر نے کا کیا فائدہ جن کی غر بت کے مسائل حل کر نے میں یہ آئین کسی طرح سے بھی ممدو معاون ثابت نہیں ہو سکتا لہذا یہ بے سود ہے“۔ (21 جون 1937ئ)”بالآخر مسلم لیگ کو اس امر کا فیصلہ کرنا ہو گا کہ اسے ہندوستان کے مسلمانوں کے بالائی طبقہ کے مفادات کی نمائندگی کرنی ہے یا مسلمانوں کی اکثریت کی، جنہوں نے بہتر وجو ہات کی بنا ءپر اب تک اس میں کسی طرح کی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ ذاتی طور پر میں تو یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ وہ سیاسی جماعت جو مسلم عوام کی بہبود کے لئے کوئی منصوبہ نہیں رکھتی وہ عوام کی کثیر تعداد کے لئے باعث کشش ثابت نہیں ہو سکتی ۔ نئے آئین کے بمو جب اعلی عہدے بالائی طبقہ کے بیٹوں کو جاتے ہیں، نسبتا کم بڑے عہدے وزیروں کے دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے مخصو ص ہو جاتے ہیں، دیگر معاملا ت میں بھی ہمارے سیاسی اداروں نے بحیثیت مجموعی مسلمانوں کی بہبود کے لئے کبھی نہیں سوچا چنانچہ روٹی کا مسئلہ شدید سے شدید تر ہو تا جا رہا ہے.... اس لئے مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کیسے دور ہو؟ لہذا مسلم لیگ کے تمام مستقبل کا انحصا ر اس کارکردگی پر ہے جو اس مسئلہ کے حل کے لئے ہو گی ۔ اگر کوئی سیاسی جماعت اس قسم کا کوئی وعدہ نہیں کر سکتی تو مجھے یقین ہے کہ پہلے کی مانند اب بھی مسلما نوں کی اکثریت اس سے غیر متعلق رہے گی۔“ (28 مئی 1937ئ)اس خط کی آخری سطریں علامہ کی جس سیاسی بصیرت کی مظہر ہیں اس کا عملی نمونہ ہماری حکومتیں گزشتہ 70 برس سے پیش کرتی آ رہی ہیںاور جس قرب نوازی، بے انصافی اور معاشی عدم مساوات کی طرف علامہ نے توجہ دلائی تھی وہ ہماری سیاسی جماعتوں کا ٹریڈ مارک قرار پائی۔ جاگیرداروں، وڈیروں، نوابوں اور پیروں پر مشتمل حکومت نہ صرف یہ کہ ہر آمر کے لئے ریڈ کارپٹ میں تبدیل ہوتی رہی بلکہ اس نے عملاً تصور پاکستان کے مقاصد کی جس طرح سے نفی کی وہ ہماری قومی تاریخ میں المیہ باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ علامہ اقبال کے بدترین اندیشے کیوں اس طرح درست ثابت ہوئے کہ ان کا محولہ بالا مراسلہ آج کے اخبار کا اداریہ محسوس ہو رہا ہے۔مسلم لیگ نے پاکستان بنایا تھا مگر اس کی بے بنیادی کی ذمہ دار بھی مسلم لیگ ہی قرار پاتی ہے اس لئے کہ یہ بنیادی طور پر جاگیرداروں کی جماعت تھی۔ جمہوریت نا آشنا جاگیردار کو صرف طرہ کے کلف اور زمین سے پیار ہوتا ہے۔ اگرچہ مستند تا ریخی کتب سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بیشتر جاگیرداروں نے غداری کے باعث انگریزوں سے زمینیں حاصل کی تھیں اور یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ بیشتر قائداعظم کے خلاف تھے مگر 1942ءتک پاکستان بننے کے امکانات واضح ہو چکے تھے لہٰذا سب مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور بالآخر پاکستان کو اپنی جاگیر میں شامل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔آج عوام کی اکثریت کے لئے پاکستان ہتھیلی پر انگارہ کی صورت اختیار کر چکا ہے تو وجہ جمہوریت، اسمبلیاں، سیاسی مہم جو اور طالع آزما سیاستدان ہی نہیں بلکہ بنیادی سبب مغل عہد سے مشابہ جاگیرادرانہ نظام اپنے تمام جبر و استبداد کے ساتھ، جسے تقویت ملتی ہے خرد سوزی اور منطق دشمنی پر مبنی ذہنی رویوں سے، جو بنیادی پرستی کی اساس استوار کر کے ملائیت کے فروغ کا باعث بن کر فکر نو کی روشنی کے بجائے اندھیرے کو چراغ قرار دیتے ہیںَ ہم نے تعمیر پاکستان کو کوٹھیوں، محلات، کارخانوں اور پلازہ کی تعمیر کے مترادف جانا یوں حاکم اور محکوم دونوں ہی ”تعمیر“ میں منہمک ہو گئے مگر علامہ اقبال کا یہ شعر کسی کو نہ یاد رہا:
جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

کرنل (ر) اکرام اللہ....قندیل

ای پیپر دی نیشن