کیا امریکہ کا زوال شروع ہو چکا ہے؟

قدرت کا یہ اصول ہے کہ جب بھی کوئی شخص یا کوئی قوم ترقی کے عروج پر پہنچتی ہے تو اس میں زوال شروع ہوجاتا ہے اورزوال کے بیج اللہ تعالیٰ اسکی ذات اوراسکے اعمال میں رکھ دیتا ہے۔اسکی اپنی ذات اور اپنے اعمال ہی اسکی تباہی و بربادی کا سبب بن جاتے ہیں۔ یہی قانون فطرت ہے جو روز ازل سے ہورہا ہے ا ور ہوتا رہے گا۔ ایک دور تھا کہ بر طانیہ گریٹ بر یٹن Great Britain کے نام سے جانا جاتا تھا۔ برطانوی سلطنت مشرق سے مغرب تک پھیلی تھی ۔ برطانوی سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہی عظیم برطانیہ سکڑتا سکڑتا ایک جزیرے تک محدود ہو گیا یہاں تک کہ آج یورپی یونین سے بھی نکلنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ ماضی کی برطانوی عظمت آج تاریخ کے اوراق میں دفن ہو چکی ہے۔ یہی حال ماضی کی عظیم اقوام اور عظیم سلطنتوں کا ہوا۔ آج سے چند دہائیاں پہلے روس ایک عظیم طاقت تھا۔ روسی ریچھ کے پنجے سے دنیا خائف تھی۔ کمزور ممالک روس کے خوف سے امریکہ کے سائے میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے تھے ۔جب روس افغانستان میں داخل ہوا تو سوچا بھی نہ جا سکتا تھا کہ روس کا یہی عمل اسکی شکست و ریخت کا سبب بن جائیگا۔ پاکستان روس کے توسیع پسندانہ عزائم سے خوفزدہ تھا۔ پھر تاریخ نے دنیا کا یہ معجزہ بھی دیکھا کہ روس کے مقابلے میں اس چھوٹے اور کمزور پاکستان نے روس جیسی عظیم طاقت کو نہ صرف افغانستان میں شکست دی بلکہ وہاں سے نکلنے پر مجبور کردیا۔روس کو افغانستان میں شکست اتنی مہنگی پڑی کہ وہ اپنی سا لمیت بھی برقرار نہ رکھ سکا اور ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔امریکہ کے نئے صدارتی انتخابات کے بعد ایسا نظر آتا ہے کہ یہ وقت اب امریکہ پر بھی آ گیا ہے۔
روس کے زوال کے بعد سے امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور رہ گیا ہے جس نے تمام دنیا کوبا لواسطہ طور پر یا بلا واسطہ طور پر اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک سے اسکے مختلف نوعیت کے معاہدے ہیں لہٰذا امریکہ آزاد دنیا کا لیڈر تصور ہوتا ہے۔ امریکی سیاست اور امریکی پالیسیاں پوری دنیا پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ امریکہ کی معاشی ،فوجی اور ٹیکنو لا جیکل طاقت اتنی زیادہ ہے کہ کوئی ملک امریکی پالیسیوں یا امریکی خواہشات کیخلاف جانے کی جراٗ ت نہیں کر سکتا اور جو ممالک ایسا کرتے ہیں انہیں نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ افغانستان، شام ،عراق، لیبیا اور یمن کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ امریکہ ایک بے رحم دشمن اور نا قابل اعتماد دوست ہے۔ امریکی سنگدلی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر ایٹمی حملہ کر کے لاکھوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ امریکہ کی دوستی اور دشمنی دونوں خطرناک ہیں لہٰذا کوئی ملک امریکہ سے تعلقا ت بگاڑنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ پاکستان کے معاملے میں تو امریکی دوستی بھی تکلیف دہ ثابت ہوئی جسکی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں اور نجانے کب تک بھگتنی پڑیگی۔ لہٰذا ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کو تو امریکہ سے تعلقات کے معاملے میں ہر قدم بہت احتیاط سے اٹھانا پڑتا ہے۔گو تا حال نئے امریکی صدر کی پالیسیاں تو سامنے نہیں آئیں لیکن صدارتی مہم کے دوران جو بیانات وہ دیتا رہا ہے وہ کوئی پاکستان کے حق میں اچھے نہیںہیں۔
امریکی عوام نے ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دے کر عہدہ صدارت تک پہنچا دیا ہے اور ظاہر ہے امریکی عوام کی خواہشات اور پسند کو کوئی دوسرا ملک چیلنج نہیں کر سکتا لیکن یہ نتیجہ سوائے بھارت کے پوری دنیا کیلئے قطعاً غیر متوقع ہے ۔بھارت وہ واحد ملک ہے جہاں ٹرمپ کی کامیابی کیلئے خصوصی دعائیہ تقریبات کا انعقاد کیا گیا اور کامیابی پر جشن منایا گیا۔ امریکہ میں مقیم بھارتی ہندوں نے پوری صدارتی مہم میں مکمل طور پر ٹرمپ کا ساتھ دیا۔ ٹرمپ بھارت اور امریکہ میں مقیم بھارتی ہندوں کے ہمدردی کے جذبے اور ہرقسم کی کھلی مدد سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے اپنے ایک بیان میں کہا؛ ’’میں ہندو کا بہت بڑا مداح ہوں۔ میرے دور اقتدار میں بھارت کو وائٹ ہائوس میں ایک بہترین دوست ملے گا اور مجھے عظیم بھارتی وزیر اعظم کیساتھ کام کر کے خوشی محسوس ہو گی ‘‘۔ ٹرمپ کے ان بیانات کی روشنی میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں پاکستان کیساتھ امریکہ کا کیارویہ ہوگا؟ لیکن جہاں تک باقی دنیا کا تعلق ہے دنیا کا شاید ہی کوئی ملک اس نتیجہ سے مطمئن ہو۔پوری دنیا میں ایک غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ یورپی ممالک جو کہ امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی ہیں سب سے زیادہ غیر یقینی کا شکار ہیں۔ امریکہ کے وائٹ ہائوس میں پہلی دفعہ ایک ایسا شخص آرہا ہے جسکا ماضی میں سیاست کا کوئی تجربہ نہیں اور نہ ہی اسکے خیالات متاثر کن ہیں۔ دنیا کے تمام تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق وہ نا تجربہ کار ،غیر مہذب، غیر سنجیدہ، متعصب ، نسل پرست اور مسلمان دشمن شخص ہے ۔امریکہ جو کہ پوری دنیا کا لیڈر ہے اس پر ایسے شخص کی حکمرانی پوری دنیا بشمول امریکہ کیلئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔
ایسے نظر آتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت قائدانہ صلاحیتوں سے عاری ہے اس لئے دنیا کے بیشتر حکمران حتٰی کہ کچھ امریکی عوام بھی اسکی ذات پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جونہی صدارتی انتخاب کا غیر متوقع نتیجہ سامنے آیا پوری دنیا میں بھونچال آگیا۔کئی ممالک کی سٹاک مارکیٹیں کریش کر گئیں۔ بازار حصص میں شدید مندی آگئی حتیٰ کہ ڈالر کی قیمت بھی گر گئی۔ کچھ یورپی لیڈروںنے کھلے عام نئی امریکی قیادت پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ باقی راہنمائوں نے محتاط انداز میں اس نئی قیادت پر شک و شبہ کا اظہار کیا جو یقیناً ایک تکلیف دہ صورتحال ہے۔ امریکہ پر عدم اعتماد کی وجہ سے پوری دنیا کی پالیسیوں میں غیر یقینی کی ا یسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے جس سے نئے اتحادی بلاک سامنے آسکتے ہیںاور امریکی اتحادی ممالک امریکہ سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ دنیا کسی نئے لیڈر کی متلاشی ہو گی ۔اس صورت میں امریکی پالیسیوں اور امریکی اثر و رسوخ کو پوری دنیا میں شدید دھچکا لگنے کا خدشہ ہے۔دوستوں سے زیادہ دشمن پیدا ہونگے۔ جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ وہ بیرونی پالیسیوںسے زیادہ امریکہ کی اندرونی پالیسیوں اور خصوصاً امریکی عوام پر توجہ دیگاتو اسکا مطلب یہ ہوگاکہ امریکہ ورلڈ لیڈر شپ رکھنے کا خواہشمند نہیں ہے۔
بیرونی دنیا کے علاوہ ٹرمپ کی کامیابی نے امریکہ میں بھی حالات میں ایک غیر یقینی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ امریکہ کی تاریخ میں پہلی دفعہ نئے صدر کیخلاف مظاہرے شروع ہو گئے ہیں جو بڑھتے بڑھتے خونی روپ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔لوگ کھلے عام نئے صدر سے اظہار نفرت کررہے ہیں۔ اسے صدر ماننے سے انکاری ہیں۔ صدر کیخلاف وال چاکنگ بھی ہو رہی ہے۔ بہت سے لوگوں نے اس انتخاب سے مایوس ہو کر کینیڈا اور نیوزی لینڈ کیلئے نقل مکانی کی کوششیں بھی شروع کردی ہیں۔ہالی وڈ کے اداکاروں نے بھی ٹرمپ کو صدر ماننے سے نکار کردیا ہے۔ حجاب اوڑھنے والی مسلمان خواتین پر حملے شروع ہو گئے ہیں۔ ان حملوں سے سیاہ فام بھی محفوظ نہیں۔ مزید تشویشناک ڈیو یلپمنٹ کچھ ریاستوںکا رویہ ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق کچھ ریاستوں نے ریاست ہائے متحدہ سے علیحدگی کا مطالبہ کردیا ہے۔ تا حال امریکی حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے امریکی عوام ٹرمپ کی قیادت سے خوفزدہ ہیں۔نفرتیں بڑھنے لگی ہیں۔ امریکہ انتشار کی طرف بڑھ رہا ہے جو یقیناً امریکہ کی نئی قیادت اور امریکہ کے مستقبل پرایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ حالات قابو میں آ تے نظر نہیں آتے۔ایسے نظر آتا ہے کہ امریکہ میںزوال کا عمل شروع ہو چکا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...