آم دنیا کے کل اثمار کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ آم کے سر پر یہ صرف کلغی نہیں بلکہ ہر پہلو سے چھان پھٹک اور ہر طرح کی جانچ پڑتال کے بعد آم نے خود ثابت کیا ہے کہ وہ اس تاج کا مستحق ہے۔ آم ایک ایسا پھل ہے جس کا درخت‘ شجر سایہ‘ سدابہار‘ خوبصورت سراپا‘ طویل القامت‘ طویل العمر‘ نسل در نسل پھل دیتا ہے۔ آم کے پھل میں بہترین غذائی اجزاءموجود ہیں۔ اس میں وٹامن سی کی مقدار‘ سٹرس کی تمام اقسام کے پھلوں سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔ آم بہت سی بیماریوں کا علاج ہے۔ آم مقوی معدہ‘ مقوی بدن‘ ہاضم‘ قبض کشا‘ خوش شکل‘ خوش ذائقہ‘ نہایت ہی لذیذ اور مرغوب پھل ہے۔ آم کے پھل کو قدیم الدیام سے بادشاہوں‘ راجوں‘ مہاراجوں کی سرپرستی حاصل رہی ہے اور درباروں تک رسائی کا ذریعہ آم ہی رہا ہے۔ شہنشاہ اکبر نے آم کے ایک لاکھ درختوں پر مشتمل اودھ (UP) میں باغ لگوایا جس کا نام ”لاکھ باغ“ رکھا۔ یہ صرف آم کا پھل ہی ہے جس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہر دور کے شعراءکرام نے اس پر مشق سخن فرمائی اور آم کی تعریف میں قصیدے لکھے۔ مرزا غالب نے کہا ”راہ روِ راہ خلد کا توشہ ۔ طوبیٰ و سِدرہ کا جگر گوشہ۔ صاحب برگ بار ہے آم‘ ناز پر پروردہ بہار ہے آم“ غالب کی خیال آفرینی کی داد دیجئے کہتے ہیں جنتی کو جب جنت کا پروانہ مل جائے گا تو زاد راہ کے طور پر اسے آم دئیے جائیں گے تاکہ راستے میں کھاتا جائے اور جنت میں داخل ہو جائے۔ اکبر اللہ آبادی نے کہا ”نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجئے اس فصل میں جو بھیجئے بس آم بھیجئے“
یہ بات بھی بایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ دنیا بھر میں سب سے بہترین آم پاکستان میں ہی پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان کی آب و ہوا اور اراضی کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت عطا فرمائی کہ وہ اس ثمر جنت کی نشوو نما اور بار آوری کے لئے موزوں ہے۔ یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے کہ برصغیر کا وہ حصہ جو الحمد اللہ پاکستان بنا اس میں ملتان کو آم کی کاشت میں پیشروی کا اعزاز حاصل ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میںپیوندی آم کی کاشت کا آغاز ملتان سے ہوا اور پھر یہ ملتان سے ہی رفتہ رفتہ دوسرے اضلاع میں پھیلا اور پھولا۔ ملتان شہر کے قریب جانب شمال دس میل دور واقع موضع صدر پور میں قلمی آم کا سال 1903 میں کاشت شدہ تختہ باغ آج بھی پوری بہار کے ساتھ پھل پھول رہا ہے۔ آم کے باغات ہماری عمر بھر کی محنتوں کا ثمر اور ہماری زندگیوں کا حاصل ہیں۔ آم کا باغ لگانا بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ بڑا جان جوکھوں کا کام ہے۔ نہ ہی یہ ششماہی فصل کی طرح ہے کہ چھ ماہ میں تیار ہو گئی اور کاشتکار فصل برداشت کر کے جیبیں بھر کے فارغ ہو گئے۔ آم کے باغات عشروں میں تیار ہوتے ہیں۔ زمین اگر آم کے لئے موزوں نہ ہو یا زیرزمین کا Ph تھوڑا اوپر پہنچے ہو تو لوگوں کی عمریں گزر جاتی ہیں۔ (راقم نے اپنی عمر رواں کے بہتر برس اس دشت کی سیاحی میں بسر کر دئیے) جب کہیں جا کر آم کا باغ تیار ہوتا ہے۔ آم کا باغ وہ فصل ہے جو باپ نے لگائی اور اس کی آنے والی پشت در پشت نے استفادہ کیا۔ آم کا درخت دوست دار‘ دوست پرور‘ اپنے کاشت کرنے والے کو پورا صلہ اور اس کی محنت کی پورا حق رسی کرتا ہے۔ ایک تیس چالیس سال عمر کا اچھی قسم کا آم کا جواں درخت‘ اپنے وجود کی تمام توانائیاں صرف کر کے ہر سال اور سال بہ سال تک اوسطاًبیس سے تیس من پھل پیدا کرتا ہے۔ ہمارے آم کے باغات قومی ورثہ اور پاکستان کی شناخت ہیں۔ کپاس اور گندم کے بعد تیسری نقد آور فصل اور روز افزوں غیر روایتی زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ ہیں۔ اللہ کی زمین بہت وسیع پڑی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ملتان میں ڈی ایچ اے‘ ان مواضعات کی طرف رخ کر رہا ہے جس میں آم کے باغات کی کثرت ہے۔ یہ بڑی ستم ظریفی اور بدنصیبی ہو گی کہ آم کے پھلتے پھولتے باغات پر کلہاڑے چلائے جائیں۔ مغربی ممالک میں ہر قسم کے درخت کے کاٹنے پر قانوناً پانبدی ہے۔ امریکہ کی ریاست Arizona جسے Cactus State بھی کہتے ہیں Cactrs یعنی تھور کے درخت میل با میل تک نظر آتے ہیں۔ سینکڑوں میل تھور ہی تھور ہے لیکن کیا مجال کہ کوئی تھور جیسے بے ثمر درخت کو کاٹ سکے۔ آم کا درخت سرسبز و شاداب‘ صاحب برگ و بار‘ ناز پروردہ بہار‘ اس کا پھل تمام اثار کا بادشاہ جنت کا میوہ‘ اس سے یہ سلوک کہ کلہاڑے چلانے کے لئے کھلی چھٹی جبکہ مغربی ممالک میں تھور جیسے بے برگ و بار بیکار درخت کو ہاتھ لگانا جرم ہے۔ یہ بین ایں تفاوت راہ‘ از کجا تابہ کجا۔
جو قومیں اللہ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتیں اللہ تعالیٰ ان کو ان نعمتوں سے محروم کر دیتا ہے اور کفران نعمت کی سزا دیتا ہے۔ اللہ نہ کرے ایسی صورت حاصل پیدا ہو۔ میری صدر پاکستان‘ وزیراعظم ‘وزیراعلیٰ پنجاب‘ گورنر پنجاب اور کمشنر ملتان سے اپیل ہے کہ وہ اس پر توجہ دیں اور اس کا کچھ سدباب کریں اور پارلیمنٹ کے معزز ممبران خصوصاً ملک سکندر حیات بوسن وفاقی وزیر خوراک سے بھی گزارش ہے کہ آم پر کلہاڑے کے سدباب کے لئے مناسب قانون سازی کی چارہ جوئی کریں۔اللہ جزائے خیر دے گا۔