اسرائیلی پارلیمنٹ میں پھر ” اللہ اکبر“ کی صدائیں، یہودی ارکان کی مخالفت،بل پر رائے شماری مو¿خر

مقبوضہ بیت المقدس (صباح نیوز+ اے ایف پی) اسرائیلی کابینہ کی جانب سے حال ہی میں ایک متنازعہ قانون منظور کیا گیا جس میں مقبوضہ فلسطین کی مساجد میں لاوڈ سپیکر پر اذان دینے پر پابندی کی منظوری دی گئی تھی۔ گذشہ روز یہ قانون پارلیمنٹ (کنیسٹ) میں پیش کیا گیا اس دوران ایک عرب رکن پارلیمنٹ نے اذان دے کر بل کیخلاف احتجاج کیا۔ طالب عرار نے اپنے خطاب کے دوران اذان دی اور دعا بھی پڑھی۔ اس سے قبل فلسطینی رکن پارلیمنٹ احمد الطیبی بھی پارلیمنٹ میں اذان دے چکے ہیں۔ اس دوران یہودی مذہبی جماعتوں کے ارکان نے بھی اس بل کی مخالفت کر دی۔ مذہبی ارکان کی مخالفت کے بعد متنازع قانون پر رائے شماری موخر کردی گئی ہے۔ عرب ٹی وی کے مطابق فلسطینی مساجد میں اذان پر پابندی کے قانون کی کابینہ سے منظوری میں بھی یہودی انتہا پسند ہی پیش پیش رہے ہیں، کنیسٹ میں انہوں نے اس قانون کی اس وقت مخالفت کی جب انہیں اندازہ ہوا کہ اذان پر پابندی کے بعد اپنی مذہبی تعلیمات کی ادائی بھی اس قانون کی زد میں آسکتی ہے۔ اگر مساجد میں لاوڈ سپیکروں پر اذان پر پابندی لگتی ہے تو ہفتے کے روز یہودیوں کی عبادات بالخصوص معابد میں وسل بجانے کی بھی ممانعت ہو سکتی ہے۔ ادھر سوشل میڈیا پر فلسطینی مساجد میں اذان پر پابندی کے خلاف دھواں دھار مہم جاری ہے جس میں فلسطینی، عرب اور مسلمان ملکوں کے لاکھوں شہری بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اسرائیل کی مذہبی جماعت یہودت ھتورا کے رہنما اور اسرائیلی وزیرداخلہ یعقوب لیٹسمن نے کھل کر اس قانون کی مخالفت کی۔ قانون پر رائے شماری کی مخالفت کرنیوالوں میں ”شاس“ کے سربراہ اریدادعی‘ وزیر مالیات موشے کولون اور وزیر صحت سمیت کئی دوسرے ارکان بھی شامل ہیں۔ یروشلم پوسٹ کے مطابق بل کی حامی ”جیوش ہوم“ پارٹی نے تعصب کا مظاہرہ کرتے کہا ہے بل کا مقصد رات کے وقت شور سے بچنا ہے لہٰذا یہودی مذہبی رسوم کو اس قانون سے استثنیٰ بھی دیا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن