آئندہ الیکشن اور ندیم و فیض

خدا خدا کر کے حلقہ بندیوں کا معاملہ طے ہو گیا ہے اور تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے نئی حلقہ بندیوں کے مطابق آئندہ الیکشن کروانے کی ترمیم منظور کر لی ہے۔ اب اُمید ہے کہ آئندہ الیکشن بر وقت منعقد ہوں گے (انشاﷲ) اور جمہوری تسلسل بر قرار رہے گا ۔ یوں بھی اب ملک کسی پرانے یا نئے تجربے کا متحمل نہیں ہے ۔ نواز شریف ملک کو ٹیک آف کی پوزیشن میں چھوڑ کر گئے تھے بلکہ انہیں جانا پڑا۔ نوازشریف کے جاتے ہی دوبارہ دہشت گردی نے پھر سر اٹھا لیا اور لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ لوڈشیڈنگ کی اذیت تو چلیئے قابلٖٖٖٖ برداشت ہے مگر دہشت گردی کے نقصانات ناقابل تلافی ہوتے ہیں ۔ جو زندگی ضائع ہو گئی وہ دوبارہ واپس نہیں لائی جا سکتی۔ حکومت کے ساتھ فوج کو بھی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے پھینکنے کی طرف بھر پور توجہ دینا ہوگی۔ یوں بھی امریکہ بار بار ’’ڈومور‘‘ کی رٹ لگا رہا ہے اور بلوچستان اور تربت کے حالیہ واقعات ایسے مطالبات کو جواز فراہم کر دیتے ہیں۔ افغانستان اپنے ملک سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں یا تو سنجیدہ نہیں یا افغان حکومت اس کی اہل ہی نہیں، اُدھر سے بھی ہمیں نقصان پہنچانے کی مسلسل کو ششیں ہو رہی ہیں، دوسری طرف بھارت کو سی پیک منصوبے کی وجہ سے آگ لگی ہوئی ہے اور وہ حسد کی آگ میں جل بھن کر رہ گیا ہے ۔ بھارت یورپ میں بھی سی پیک کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے اور بلوچستان کی علیحدگی پسند جماعتوں اور افراد سے مل کے وہاں جھوٹا پروپیگنڈہ کر رہا ہے۔ اشتہار بازی کر رہا ہے ، اور بلوچستان میں فزیکلی دہشت گردی کر وا رہا ہے تاکہ یہ منصوبہ مکمل نہ ہو پائے۔ لیکن چین بھی بھارت کو بڑے صاف الفاظ میں انتباہ کر چکا ہے کہ سی پیک کے خلاف کی جانے والی ہر سازش کو چین اور پاکستان مل کر ناکام بنائیںگے۔ بھارت اپنی جارحانہ پالیسیوں سے باز آجائے ۔ چین نے تو یہا ں تک کہہ دیا ہے کہ علاقے کا امن مقبوضہ کشمیر کے تنازعے کے حل میں مضمر ہے ۔ بھارت کو پاکستان کے ساتھ با مقصد مذکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کر نا چاہیے۔ تاکہ خطے میں پائیدار امن بحال ہو سکے ۔ مسلم لیگ ن اور پی پی سمیت تمام جماعتیں بروقت انتخابات پر متفق ہیں۔ لیکن عمران خان جلدی چاہ رہے ہیں۔ وہ قبل از وقت انتخابات کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ابھی حال میں انہوں نے یہ خواب دیکھا ہے کہ حکومت اگلے ماہ ختم ہو جائے گی۔ جس کی جگہ ایک عبوری حکومت آئے گی۔ جو نوے (90) روز میں انتخابات کروانے کی پابند ہوگی وغیرہم… یہ خواب شیخ رشید کی پیشین گو ئی بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ شیخ رشید بھی اپنے ’’آئینہ ادراک‘‘ میں آنے والے واقعات و حادثات کا عکس دیکھ لیتے ہیں۔ جو ہمیشہ الٹا ہوتا ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ عمران کو انتخابات کی اتنی جلدی کیوں پڑی ہے؟ کیا وہ پورے ملک میں مضبوط امیدار وار کھڑے کرنے کی پوزیشن میں آچکے ہیں؟ کیا انہوں نے یہ معلوم کر لیا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن جیت جائیں گے؟ … مسلم لیگ ن پاکستان کی سب سے بڑی اور مضبوط جماعت ہے۔ ا س کے ہوتے ہوئے انتخابات جیتنے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں ؟ جبکہ تحریک انصاف میں پی پی کے چلے ہوئے کارتوس بھرے ہوئے ہیں۔ جنہیں لوگ کئی مرتبہ آزما چکے ہیں۔ اب لوگ سنجیدہ اور تجربہ کار قیادت کو، جس نے ملک کے لئے کچھ کیا بھی ہو، اسی کو ووٹ دیں گے۔ صبر سے کام لیں، موجودہ حکومت کو پانچ برس پورے کرنے دیں یہ سبھی کے لئے نیک شگون ہے۔

نومبر محترم احمد ندیم قاسمی کا مہینہ ہے۔ 20 نومبر کو ان کی سالگرہ بہت اہتمام کے ساتھ منائی جاتی ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ 20 نومبر کو ہی فیض احمد فیض کا انتقال ہوا تھا، لیکن اسی مہینے میں ’’فیض انٹرنیشنل میلہ‘‘ بھی منعقد ہوتا ہے اور اب تو یہ میلہ واقعی بین الاقوامی حیثیت حاصل کر چکا ہے کیونکہ اس میں شرکت کے لئے پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں۔ میرا چونکہ بہت وقت قاسمی صاحب کے ساتھ گزرا ہے اس لئے قاسمی صاحب اکثر اپنے اور فیض صاحب کے واقعات سنایا کرتے تھے۔ ایک بار یہ دونوں شخصیات لاہور سے کراچی براستہ ٹرین جا رہی تھیں، فیض صاحب قاسمی صاحب سے کہنے لگے ، آپ نے بتایا نہیںکہ آپ نے یہاں جنرل سٹور بھی کھول رکھا ہے۔ سبھی لوگ ان کی بے تکلفی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔آگے پھر کہیں گاڑی رکی تو ایک بورڈ پر لکھا تھا، فیض ’’گرم حمام ‘‘ قاسمی صاحب فیض صاحب سے بولے وہ دیکھیئے آپ نے یہاں حمام کھول رکھا ہے اور ہمیں بتایا بھی نہیں۔ چلئیے آپ کے حمام میں چل کر نہاتے ہیں۔ دیگر شعراء بہت ہنسے اور یونہی ہنستے ہنستے دونوں کا سفر کٹ گیا۔ آج صرف ان کی یادیں باقی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن