آج کے دور میں ملکوں اورمعاشروں کی ترقی ، تعمیر اور فلاح کا دارومدارانکے پڑوسی اور علاقائی ممالک کے ساتھ بہتر ومثالی تعاون کے ساتھ جڑا ہوا ہے اوراگر قریبی وعلاقائی ممالک کے ساتھ باہم تعمیری و مثبت تعلقات ہوں تو یہ دونوں ممالک کیلئے انتہائی سود مند ثابت ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے علاقائی تجارت کے فوائدسے بھی کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا کیونکہ علاقائی تجارت کی وجہ سے ممبرممالک کے درمیان باہمی تعاون سے وہ ایک دوسرے کے کئی معاملات میںساتھ دیتے ہیں جن میں، سیاسی ،سماجی معاشی اور دفاعی معاملات بھی شامل ہوتے ہیں ۔
علاقائی تعاون کی اہمیت کو ہی تسلیم کرتے ہوئے 21جولائی 1964 میں ایران ، پاکستان اور ترکی نے مل کر ایک تنظیم کی بنیاد رکھی تھی جس کا نام ریجنل کوآپریشن فار ڈویلپمنٹ (RCD) رکھا گیا تھا جس کا مقصد رکن ممالک کے درمیان ثقافتی ، سماجی اور معاشی تعاون کو فروغ دیا جانا تھا۔ اس تنظیم کو 1979میں ختم کردیا گیا اور اسکی جگہ پر 1985 میںتنظیم برائے معاشی تعاون (ECO)کا وجود عمل میں لایا گیا جس میں سات نئے رکن شامل کئے گئے جن میں افغانستان، آذربائیجان ، قازقستان ،کرغستان ،ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان شامل ہیں۔ اس تنظیم کا مقصد ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا اور ایسے طریقے کار وضع کرنا ہے جس کے نتیجے میں رکن ممالک کی ترقی میں اضافہ کیا جائے، باہمی تجارت کو بڑھایا جائے اور سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے ۔
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے جو فائدہ اٹھانا چاہیے تھا وہ ہم اب تک اٹھا نہ سکے ہیں ۔ حالانکہ اس تنظیم کے تقریباً تمام رکن ممالک تیل ، گیس اور دیگر معدنی ذخائر سے مالامال ہیں ۔ وسطی ایشیائی ریاستیں مثلاً کرغستان ،تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان وغیرہ کی سرحدیں مشترکہ زرعی اجناس کی کاشت سے جڑی ہوئی ہیں ، ترکی اور ایران کے درمیان تجارت کا معاہدہ شامل ہے اورپاکستان کے ترکی ، ایران اور افغانستان کے ساتھ بھی آزاد تجارت کا معاہدے موجود ہے جس میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ بھی شامل ہے مگر ہم امریکی ویورپی دبائو اورامریکی ویورپی خوشنودی حاصل کرنے کی تگ ودو میں ہی لگے رہے ہیں اسی لئے اب تک ECO کے پلیٹ فارم سے ہم کچھ حاصل نہیں کرپائے حالانکہ وسطی ایشیائی ریاستیں خصوصاً قازقستان اور ترکمانستان جو تیل و گیس کے ذخائرسے بھرپور ہیں ان کومشرق بعید تک براستہ پاکستانی بندرگاہوں کے سہولت دی جاسکتی ہے اور جو ECO کے چارٹر میں بھی شامل ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی معاشی و اقتصادی ترقی کا ایک روشن باب کھل سکتا ہے مگر ہمارے ارباب اختیار اس کیلئے اب تک کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کرپائے ہیں۔
اسکے برعکس امریکی ویورپی ممالک ایشیائی خطے میں ہر معاملے میںبھارت کو ترجیح دے رہے ہیں چاہے وہ معاشی معاملہ ہو یا دفاعی معاملہ ۔علاقائی تعاون کے حوالے سے ایک امید افزاخبر یہ ہے کہ پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے گذشتہ دنوں ایران کادورہ کیا جس میںانہوں نے ایران کی سیاسی وعسکری قیادت سے ملاقاتیں کیں اور دوطرفہ برادرانہ تعلقات کو مزیدبڑھانے کا اعادہ کیا۔ میں سمجھتا ہوں موجودہ حالات میں یہ دورہ بڑی اہمیت کا حامل ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے ایران کے ساتھ دفاعی اور معاشی تعلقات پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے ۔ اسکے علاوہ اچھی خبر یہ ہے اس دورے کے دوران ایران نے ایک بار پھرپاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کو دوبارہ شروع کرنے کی پیشکش کی ہے، جس منصوبے کوہم نے امریکی دبائو کے باعث سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے داخل دفتر کردیا گیا تھاحالانکہ یہ گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان کی معاشی ترقی کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کے کے پایہ تکمیل ہونے سے پاکستان میں توانائی کی کمی پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔
اسکے علاوہ افسوس کی بات یہ ہے کہECOکے پلیٹ فارم کے باوجود پاکستان کے تجارتی تعلقات ECO کے رکن ممالک سے بہت کم ہیں مثلاً ایران پاکستان کا دوطرفہ تجارت کا حجم انتہائی کم یعنی صرف 29.24ملین ڈالرز ہے جس میںپاکستان کی برآمدات29ملین اور درآمدات 0.24 ملین ہے جبکہ بھارت کی ایران کو برآمدات 5.4 ارب ڈالرزاور بنگلہ دیش کی ایران کیلئے برآمدات 50.25 ملین ڈالرزہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ECO کے رکن ہونے کے باوجود ہم معاشی طور پر اپنے تنظیم کے ہی رکن ممالک سے فائدہ نہیں اٹھاسکے۔
ایک خوش آئند خبر یہ بھی ہے کہ گذشتہ دنوں گورنر سندھ محمد زبیر نے" رائزنگ پاکستان ایکسپوزیشن" میں شرکت کرنیوالے ترک سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کا نمائش میں شرکت کرنے اوربھرپور سپورٹ کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی ،معاشی اور اقتصادی حالات میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی تعاون کو مزید بڑھائیں گے ۔
اس وقت پاک ترک باہمی تجارت 554ملین ڈالرز ہے جس میں پاکستان کی برآمدات 249ملین ڈالرزاور درآمدات 305ملین ڈالرز ہے مگر اس میں تقریباً تین گنا اضافہ اب بھی ممکن ہے کیونکہ بھارت ترکی کی باہمی تجارت 6.409ارب ڈالرز ہے جس میں سے 655ملین ڈالرز کی بھارتی برآمدات شامل ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترکی کے ساتھ تجارت خصوصاً برآمدات کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ گذشتہ دنوں آئے ہوئے ترک نمائندوں نے پاکستان سے تجارت بڑھانے اور بڑی سرمایہ کاری کرنے کا واضح اشارہ دیا ہے جس سے امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کی ترکی کے ساتھ تجارت اور برآمدات میں اضافے ہونے کا امکان ہے ۔
اسکے علاوہ ECOکے دیگر رکن ممالک کے ساتھ تجارت کا جائزہ لیں تو پاک افغان باہمی تجارت کا حجم 2.7ارب ڈالرز تھا جو کم ہوکر 1.5ارب ڈالرز ہوچکا ہے جس کی بڑی وجہ معتبر ذرائع کیمطابق بھارت کا افغانستان میں اثرورسوخ اور اسمگلنگ بھی ہے جبکہ اعدادوشمار کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تقریباً 2.5ارب ڈالرز مالیت کی اشیاء کی اسمگلنگ ہورہی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو بھاری خسارہ ہورہا ہے اور اسکی روک تھام انتہائی ضروری ہے ۔آذربائیجان کے ساتھ پاکستان کی باہمی تجارت کا حجم17.1ملین ڈالرز ہے ، قازقستان کے ساتھ 42.05ملین ڈالرز ہے ، کرغستان کے ساتھ 0.553 ملین ڈالرزہے، تاجکستان کے ساتھ 13.65 ملین ڈالرز ہے ، ترکمانستان کے ساتھ 5.93ملین ڈالرز ہے اور ازبکستان کے ساتھ پاکستان کی باہمی تجارت کا حجم 5.58 ملین ڈالرز ہے جبکہECOکے ان تمام رکن ممالک کے ساتھ تجارت بڑھانے کے وسیع تر مواقع موجود ہیں ۔ اس لئے اگر ہم معاشی تعاون تنظیم( Economic Cooperation Organization) کے پلیٹ فارم سے کوشش کریں اور رکن ممالک کے درمیان تجارت کو بڑھانے پر توجہ دیں تو اپنے ملک کی معیشت کو ترقی کی راہوں پر ڈال سکتے ہیں ۔
اسکے علاوہ ECOممالک سے اپنے تجارتی ، معاشی اور سیاسی تعلقات مضبوط کرنے کی وجہ سے ہمارا حریف بھارت جس طرح افغانستان ، ایران اور ترکی میں اپنا اثر ورسوخ بڑھارہا ہے اسکی روک تھام بھی ممکن ہوسکے گی ۔علاقائی تعاون کے حوالے سے ہمارے دوست ملک چین کے ساتھ ہمارے انتہائی دوستانہ اوربرادرانہ معاشی وسیاسی تعلقات ہیں اور سی پیک اسی بے مثال دوستی کی روشن دلیل ہے اس لئے ہمیں چاہیے کہ امریکی ویورپی دبائو، خوشنودی اورنام نہاد دوستی کو ایک طرف رکھ کر اپنے ملک کے مفاد میں فیصلے کریں اور قریبی اور علاقائی ممالک کے درمیان کو تجارت کو فروغ دینے کی سعی کریں کیونکہ امریکہ کو بس اپنا مفاد عزیز ہے اور وہ ہماری تجارت کو بڑھانے کے بجائے صرف اور صرف ڈو مور کی گردان کئے جارہاہے ۔اس کے علاوہ امریکہ اپنی دھونس ودھمکیوں کے زور پر اورعالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے پاکستان پر دبائو دردبائو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جبکہ ہم سب کچھ جاننے کے باوجودقرضوں و امداد کی دلدل میں دھنسے جارہے ہیںاس لئے اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اپنے قریبی ممالک کے ساتھ معاشی سرگرمیاں بڑھائے ، اپنی برآمدات بڑھانے کی کوشش کرے ، درآمدات میں کمی لائے ، قرضوں و امداد کی پالیسیوں سے باہر آئے اور اپنے وسائل پر بھروسہ کرے اسی صورت میں پاکستان کی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہوسکتی ہے۔