جب ایک شخص کسی بھی عہدے پہ فائز ہوتا ہے تو پھر اصولاً اس کی زندگی اس کی نہیں رہتی اس کی سوچ اس کا فیصلہ عوام کا ہوتا ہے، عوام اور کسی کا احتساب کرے نہ کرے مگر ذمہ دار شخص کا حساب لینے کو کھڑی ہو جاتی ہے۔
کسی بھی عمل کو اجاگر کرنے کیلئے ایک لمحہ نہیں لگتا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا جس تیزی اور تندہی سے یہ کام سرانجام دیتے ہیں اگر اس کا 25 فیصد بھی وہ کسی اچھے مقصد کیلئے استعمال کریں تو شاید پاکستان کی عزت اور ان کے اپنے وقار میں اضافہ ہو، لیکن اکثر میڈیا کے مالکان انکے سٹیک ہولڈرز کو اس چیز کا شعور ہی نہیں کہ میڈیا ایک قابل عزت شعبہ ہے مگر ان کا متعصبانہ رویہ ، اخلاقیات کی دھجیاں اڑانا ان گنت اشتہارات کی مشہوری کرکے ان کا پیسہ کمانا چینلز کا ایمان بن چکا ہے میڈیا Core Values بھول چکا ہے میڈیا اپنی ذہانت اور آگہی سے بات نہیں کرتا جبکہ میڈیا توEhtics کی بنیاد ہے اور ایک صحافی کو اپنی تمام Complusion کا دھیان رکھنا ہوتا ہے اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو معاشرے میں شدید ہیجان کے ساتھ ساتھ بگاڑ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اگر قصور ڈھونڈنے نکلو تو کوئی بھی قصور وار نظر نہیں آتا کیونکہ کوئی اپنی غلطی یا اپنی پالیسی میں کسی قسم کا قدغن مانتا ہی نہیں عجب اتفاق ہے کہ سب سچے ہیں تو پھر شور و غوغا کیوں آخرکچھ تو ہے جو سامنے ہے مگر لوگ دیکھنا نہیں چاہتے ہمارا معاشرہ جذباتی وابستگی کا شکار ہے جذبات ہی انسان کو محب وطن بناتے ہیں اور سماج کے ساتھ مضبوط رشتہ استوار کرتے ہیں بشرطیکہ جذباتی کیفیت مثبت ہو مگر شومئی قسمت سے ہمارے ہاں منفی سوچ کا دار و مدار بہت زیادہ نظرآتا ہے، انسان میں صبر برداشت حوصلہ درگزر نہ کرنے کی عادت استوار ہو چکی ہے کہ وہ معمولی باتوں پہ بھی طیش کھانے لگاہے ہم صرف حق کی بات کرنے کے عادی ہیں لیکن جب تک ہم اپنا حق چھوڑنے کی سوچ پر قانے نہیں ہونگے تب تک ہم اپنے فرض کی ادائیگی پہ ایماندار نہیں ہوسکتے یہ بہت اہم بات ہے کہ ہم لوگوں کے بارے میں نہیں سوچتے صرف اپنی ذات کو اہمیت دیتے ہیں ہم نے کیا کمانا ہے کتنا جمع کرنا ہے۔کیا ہم ان لوگوں میں سے نہیں جنہوں نے آسمان پر اڑنا اور پانی میں تیرنا سیکھ لیا مگر زمین پہ رہنا نہیں سیکھ پائے یہی المیہ ہے کہ ہم اپنا مقام نہیں جان سکے کہیں وقت سے ڈرتے ہیں کہیں معاشرے سے، کہیں لوگوں کی باتوں سے، کہیں اپنے نفس سے اور کہیں قانون سے مگر ہمارے ڈرنے سے کیا ہوتاہے ہم تو افلاطون کے مطابق وہ چھوٹے موٹے کیڑے ہیں جو قانون اور سماج کے جال میں پھنس جاتے ہیں مگر بڑے جانور جال توڑ کر نکل جاتے ہیں لیکن کیا کبھی سوچا کہ یہ جانور تو جو اب بڑے ہوچکے ہیں پہلے کبھی یہ بھی چھوٹے جانور تھے ہماری طرح ایک کارکن ایک کیڑا مکوڑ مگر ان کو بڑا جانور کس نے بنایا، بڑے سیٹھ کا رتبہ کس نے دیا ہم نے جو انکار نہیں کر سکتے توکیا کل ہم انکی جگہ نہ لے لیں گے آج جو ہمیں مناسب نہیں لگتا کل وہ ہمارا ایمان بن جائیگا لیکن مجھے لگتاہے کہ ہم تو اپنا احتساب کرنے کے قائل اور قابل ہی نہیں اس لیے تو صرف ایک انگلی کا استعمال کرتے ہیں جو صرف دوسروں کی طرف اٹھتی ہے اور کبھی چور آنکھوں سے بھی ان تین انگلیوں پہ نظرنہیں ڈالتے جو ہماری طرف اشارہ کر رہی ہوتی ہیں۔ہم بہت جلد ہار مان جاتے ہیں نہ خود کی مدد کر سکتے ہیں نہ کسی کی مدد کرنے کے قابل رہتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہم اس ریاست کے وہ عہدیدار بن جاتے ہیں جو مجرموں پہ رحم کرتی اور بے گناہوں کو بے رحمی سے مارتی ہے اس پر بھی ہم توقع کرینگے کہ ہمارا آنگن خوشبوئوں سے بھرا رہے۔ میں یہ سوچتی ہوں کہ آخر زَبر سے کب تک گزارا ہوگا کبھی تو زِیر بھی ہونا ہے کیونکہ ایک دن پْیش بھی ہوناہوگا اسی پیشی کومدنظررکھتے ہوئے پی ٹی وی کے ایم ڈی حمید قاضی صاحب نے چارج سنبھالتے ہی اس ادارے میں کرپشن کوجڑ سے اکھاڑنے کیلئے کچھ ایسی اصلاحات کیں کہ ہم حیران رہ گئے اور قلم دوست کے چیئرمین ایثار صاحب نے منجھے ہوئے صحافی ناصف اعوان اور مبشر الماس کے ساتھ پی ٹی وی ایم ڈی سے ایک ملاقات رکھی، ملاقات کا مقصد الیکٹرانک میڈیا کے مسائل اور مسائل کے ساتھ ساتھ پچھلے کئی سالوں سے اس ادارے میں ہونیوالی کرپشن پر سیر حاصل گفتگو کرنا تھا، حمیدقاضی صاحب کا تعلق اٹک سے ہے انتہائی نفیس انسان اور اعلیٰ کردار کے حامل حمیدصاحب نے بتایا کہ میں نے جب یہ چارج لیا تو گوناگوں مسائل سراٹھائے کھڑے تھے ہر شعبے میں ریاکاری، اقربا پروری،احساس ذمہ داری سے روگردانی واضح نظرآرہی تھی، انتظامیہ کا حال یہ تھا کہ باتھ رومز کتنے ماہ سے خراب پڑے تھے اور کوئی پرسان حال نہ تھا میڈیکل کے مسائل آسمان کو چھو رہے تھے۔ ان کا ستر فیصد حصہ نجانے کہاں جاتا تھا سونے پہ سہاگہ یہ کہ وہاں کی یونین کی دادا گیری سے سب اثرانداز ہورہے تھے ان تمام مسائل کو دیکھتے ہوئے انہوں نے جب جانچ پڑتال کی تو انسانی حرص وہوس کا مکر وہ چہرہ سامنے آگیا ،انہوں نے عقل وفہم کا استعمال کرتے ہوئے انتہائی چابک دستی سے ایسی حکمت عملی اختیار کی اور اس پہ عملدرآمد یقینی بنایا کہ آج پی ٹی وی کی عمارت قابل دید،اکائونٹس ہر طرح کی بے ایمانی سے پاک روپے کے محافظ، اسکے ملازمین اور عہدیدار محفوظ اور پرسکون اورمطمئن ہوچکے ہیں۔ یونین کے شترے بے مہار لوگ بھی اب اصول وضوابط کے دائرے میں آ کھڑے ہوئے ہیں، حمید قاضی صاحب جیسے لوگ جو سچے مسلمان اور سچے پاکستانی ہونے کی حیثیت سے تحریک آزادی کی وہ نظریاتی جنگ لڑنے کا ارادہ کرچکے ہیںجو پاکستان کی عزت اور توقیر کی بنیاد ہے اور ایسے لوگ ہمارے وطن کے سرمایہ ہیں۔