اگر کبھی آپ کا روس یا نیوزی لینڈ جانے کا اتفاق ہوا ہو تو گاڑی میں سفر کرتے ہوئے آپ گھنٹوں کہیں کسی شخص کو نہ دیکھ پائیں گے۔ ہم پاکستانیوں کو اس سے بے حد حیرت ہوتی ہے کیونکہ ماسوائے بلوچستان کے چند علاقوں کے پورے ملک میں ہر طرف انسانوں کا جم غفیر دن رات سڑکوں پر نظر آئے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس وقت کے لئے تیار ہیں جب اس جم غفیر کے کھانے کے لئے کچھ نہ مل سکے گا۔ یعنی لباس کے لئے کپڑا، بچوں کی تعلیم کے لئے سکول کالج اور علاج معالجے کی سہولیات۔ یقیناً ہمارا جواب "نفی" میں ہوگا تو اس کے لئے ہمیں اپنی بے تحاشہ بڑھتی ہوئی آبادی کے بارے میں مؤثر اور قابل عمل اقدامات فوری طور پر کرنے پڑیں گے۔
اقوام متحدہ کی UNFPA کے مطابق پاکستان اس وقت دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ گنجان آباد ملک ہے اور اگر یہی صورتحال (Trend) رہی توملک چوتھی سطح پر آجائے گا۔ آبادی میں اضافے کی 2.4% (دواعشاریہ چار فی صد) سطح پوری دنیا میں اول نمبر پر ہے اور یہ پورے ایشیائی علاقے میں سب سے زیادہ ہے اس ضمن میں سیاست دانوں اور منصوبہ سازی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جب کبھی اخبار یا ٹی وی میں فیملی پلاننگ کو فروغ دینے کی خبر شائع ہوتی ہے تو ہمارے علما شور مچا دیتے ہیں اور ان کو اسلام خطرے میں پڑ جانے کا خبط سوار ہوجاتا ہے کیونکہ بے شمار علماء کا حال ملک عزیز میں نیم حکیم خطرہ جان نیم ملاں خطرہ ایمان کا سا ہے۔ علماء تو سرمایہ ہوتے ہیں اور ان کو نبیوں کا وارث قرار دیا جاتا ہے۔ حکومت کو اس امر کا علم ہونا چاہیے کہ اگر آبادی میں اضافہ اسی طرح بڑھتا رہا تو ہم فاقوں مریں گے اور ملک شدید مشکلات کا شکار ہوجائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم مذھبی انتہا پسند افراد کے کہنے پر عمل کریں یا ملک کو تباہی سے بچائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ شرح پر بڑھتی ہوئی آبادی ہمیں مکمل طور پر برباد کردے گی۔ اس ضمن میں ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ مستقبل میں آبادی کے اس طرح بڑھنے سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ پچھلے دس سالوں میں غربت کی سطح آبادی بڑھنے کی وجہ سے بہت زیادہ بڑھی ہے یہ سوچنے کی بات ہے کہ جب سے مشرقی پاکستان ہم سے 1971 ء میں الگ ہوا ہے۔ انہوں نے ایک مسلمان ملک ہونے کے باوجود آبادی کی سطح میں بڑھوتری کو قابو کرکے اسے صرف ایک فیصد پر لے آئے ہیں۔ انہوں نے مذہبی رہنماؤں سے مذاکرات کرکے ان کو اس بات پر قائل کیا کہ اگر آبادی کی ترجیح اگر اسی طرح بڑھتی رہی تو وہ برباد ہوجائینگے اور اب ان کی آبادی بڑھنے کی شرح پاکستان سے آدھی ہوگئی ہے۔ دراصل ہمارا مسئلہ فیملی پلاننگ کو فروغ دینے میں کوتاہی ہے اور خواتین کو برائے راست contraceptives دینے میں جھجک ہے۔ UNICEF کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین تو فیملی پلاننگ کے حق میں ہیں مگر مرد حضرات ان سے تعاون نہیں کرتے۔ ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ 15(پندرہ) سے 30 (تیس) سال کے درمیان ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کو Sex education کے بارے میں ضروری باتیں بتائی جائیں مگر اس پر والدین اور دینی علما کا بے حد منفی ردِ عمل آڑے آئیگا۔ دنیا میں ایسی بے انتہا مثالیں موجود ہیں جہاں آبادی کو قابو میں رکھنے کیلئے تعلیم دی جاتی ہے اور اس کے بہت مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ آبادی کی بڑھوتری کا اثر صوبہ سندھ میں خاص طور پر بہت زیادہ ہے وہاں خواتین میں غذائیت کی کمی بے حد ہے۔ بار بار حاملہ ہونے سے عورتیں بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں۔ نیز کم سنی میں شادی بھی مشکلات پیدا کرتی ہے۔اسی وجہ سے 5 سال کے بچوں کی شرح اموات بہت زیادہ ہیں جس کی اصل وجہ ماں کی کمزور صحت اور خوراک کی کم یابی ہے۔ نئی حکومت کی طرف سے ابھی تک فیملی پلاننگ جیسے اہم معاملے پر ابھی کوئی پالیسی یاخبر نہیں ملی ہے اسکو جنگی بنیادوں پر حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم اپنے ملک کے محدود رقبے پر اور زیادہ افراد کے متحمل ہی نہیں ہوسکتے نیز گاؤں اور دیہاتوں سے شہروں میں آکر آباد ہونے کا رجحان دن بدن بڑھ رہا ہے۔ جس سے شہروں میں سہولیات کا فقدان پیدا ہورہا ہے۔ ہمیں خواتین کے اولاد کے پیدا کرنے یا نہ کرنے کا حق دے کر اسے بحال کرنا ہوگا۔ کیونکہ بچے پیدا کرنا اور انکی پرورش میں سب سے زیادہ تکالیف برداشت کرنا خواتین کا کام ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ سکول کالج اور مساجد میں اس سلسلے میں صحیح رہنمائی کی جائے اور ذرائع ابلاغ یعنی اخبار اور ٹی وی اس سلسلے میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔قارئین! نئے وزیراعظم کا "نیاپاکستان" بنانے کا خواب اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک ملک کی بے تحاشہ آبادی کی بڑھوتری کو روکا نہ جائے۔ عالمی سطح پر دوسرے مسلم ممالک آبادی کو ایک مناسب سطح پر رکھنے کو عار محسوس نہیں کرتے اور وہاں پر اسلام "خطرے" میں نہیں پڑا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انکی تقلید کریں اور ملک میں بے تحاشہ بڑھتی ہوئی آبادی کو قابو کریں اور غربت اور افلاس کے مسئلے کو حل کریں۔ بین الاقوامی آرگنائزیشن بنام UNFPA نے متنبہ کیا ہے کہ پاکستان سخت بحران کی زد میں ہے ہماری حکومت کو اور نجی آرگنائزیشن کو بہت تندھی سے اس سلسلے میں کام کرنا ہوگا کیونکہ آبادی کی موجودہ شرح پر بڑھوتری آئندہ چند برسوں میں تباہی کا باعث بن جائیگی ابھی بھی وقت ہے کہ حکومت اور نجی ادارے اس سلسلے میں کام کریں۔
’’آبادی کے انبار کی روک تھام کیلئے اقدامات کی ضرورت‘‘
Nov 18, 2018