اپوزیشن کے پوزیشن والے سیاسی لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ عمران خان ہٹلر ہیں‘ انہوں نے کبھی جنرل ضیاء اور جنرل پرویزمشرف کو ہٹلر نہیں کہا تھا۔ اس زمانے میں کسی جمہوری سیاستدان کو کسی دوسرے کیلئے بھی ہٹلر کا لفظ استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہ کوئی جمہوری عمل نہیں ہے۔ شاید انہیں ہٹلر کے علاوہ کوئی لفظ نہیں آتا۔ بہت سے لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ہٹلر کون تھا۔
عمران خان تو بہرحال ایک جمہوری لیڈر ہیں۔ وہ ایک جمہوری جماعت کے سربراہ ہیں۔ وہ سب جمہوری لوگ ہیں اور ان کو اپنا لیڈر مانتے ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ جس اسمبلی نے انہیں وزیراعظم بنایا ہے‘ خورشیدشاہ اس کے ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ اس طرح کی اصلاحات کسی جمہوری معاشرے میں استعمال نہیں کرنا چاہئیں یہ عمران خان کی کردارکشی نہیں‘ ان کی جماعت کے لوگوں کی توہین ہے۔ خورشید شاہ کی جماعت کے سربراہ ذوالفقار بھٹو کیلئے بھی شاید عام طور پر کسی سیاستدان نے یہ لفظ استعمال نہیں کئے تھے۔ وہ مزاج کے اعتبار سے کم نہ تھے۔ ان سے بات کرنا بھی ان کے کئی ساتھیوں کیلئے مشکل تھا‘ لیکن وہ بہت بڑے لیڈر تھے۔ پاکستان میں اس وقت موجود بہت لیڈروں سے بہت بڑے لیڈر تھے۔
قائداعظم کے بعد ان کا نام لیا جاتا ہے۔ آج کل اس کے بعد عمران خان بھی ایک مثال کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔ میں نے کئی دانشور لوگوں کو ایک سیاسی ٹرائیکا کے طور پر تین نام لیتے ہوئے سنا ہے جبکہ ان کا اپنا اپنا مقام اور کردار ہے۔ قائداعظم‘ ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان۔
قائداعظم تو بابائے قوم ہیں اور ان کے ساتھ کسی کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ عام لوگ یہ برداشت بھی نہیں کرتے مگر چند خاص لوگ ہیں جو یہ کام بڑی آسانی سے کر لیتے ہیں۔ بھٹو صاحب کو پھانسی نہ چڑھایا جاتا تو شاید وہ کوئی ایسا کردار ادا کرتے جو یاد رکھا جاتا۔ عمران خان ابھی میدان میں ہیں اور ابھی انہیں کوئی کردار ادا کرنا ہے۔ ویسے ان کے ساتھ کئی امیدیں استوار کی جا رہی ہیں۔ اللہ ان کی حفاظت کرے۔
ہر زمانے کا اپنا ایک لیڈر ہوتا ہے۔ اپنے زمانے کے حساب سے اس کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور اپنا کوئی کردار ہوتا ہے مگر کئی لوگ نہ ذمہ داری لیتے ہیں نہ کوئی کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ اپنی ذاتی تشہیر اور مفادات کو سامنے رکھتے ہیں اور انہی لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں جو ان کے ذاتی مفادات میں شریک ہوتے ہیں اور ان کے تھلے لگے رہتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بینظیربھٹو کو بھی جینے نہ دیا گیا۔ مرتضیٰ بھٹو صورتحال کو سنبھال سکتے تھے‘ انہیں بھی رستے سے ہٹا دیا گیا۔ اس کے بعد نظر فاطمہ بھٹو پر تھی۔ وہ جان بچا کر بیرون ملک چلی گئی۔ بینظیربھٹو کی بہن صنم (جن کا نام بھی یاد نہیں رہا) بیرون ملک سے پاکستان آتی ہی نہیں۔ پارٹی کے طور پر بھی قبول کر لیا تھا۔
یہ زرداری صاحب کی سیاسی بصیرت اور ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آج زرداری صاحب نے ایک بیان میں کہا ہے کہ برداشت ا ور حوصلہ دونوں اچھی زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہیں۔ مہذب معاشرے کے لئے برداشت کے اصول کو اپنانا ہو گا۔ زرداری اور بلاول دونوں نے عالمی دن کے موقع پر یہ پیغام دیا ہے۔
آصف زرداری کے دل میں جو کچھ بھی ہو۔ وہ کسی نیگٹو بات کو ظاہر نہیں کرتے۔ ان سے زیادہ گہرا اور دوسروں کی عزت نفس کا خیال کرنے والا کوئی دوسرا نہیں۔ جب وہ جیل میں تھے تو میںنے ان کے لئے بہت کالم لکھے تھے۔ ’’ان پرمقدمے چلائو یا ان کو رہا کرو‘ انہوں نے جس حوصلے اور خوشگوار طریقے سے جیل کاٹی، اُس پر حیرت ہے۔
مرحوم مجید نظامی نے اُن کو مرد حُر کاخطاب دیا تھا۔ نواز شریف نے اعتراض کیا تو نظامی صاحب نے فرمایا کہ تم بھی اسی ہمت سے اور خوشگواریت سے جیل کا ٹو تو میں تمہارے لئے بھی کوئی خطاب تلاش کر لوں گا۔ نواز شریف اپنی فیملی سمیت سعودی عرب چلے گئے تھے جس کانظامی صاحب کو رنج تھا ۔ زرداری جیل سے سیدھے نوائے وقت کے دفتر آئے اور مجید نظامی سے ملے۔
اب یہ کہاجاتا ہے کہ پیپلز پارٹی زرداری پارٹی ہو گئی ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ آخر پیپلز پارٹی کو بھٹو پارٹی بھی کہا جاتا ہے۔ کوئی شخص کوئی کردار تو ادا کرے۔ پھر اس کا ایوارڈ بھی ملنا چاہئے۔ ہماری قوم ایوارڈ تو دے دیتی ہے مگر ایوارڈ دینے میں بہت باتیں بنائی جاتی ہیں۔
زرداری کے مرشد و محبوب مجیدنظامی نے مرد حُر کا خطاب دیا تھا تو اس حریت پسندی کو قبول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کرنا چاہئے۔ محترمہ رمیزہ مجید نظامی نے نوائے وقت کے لئے بہت جذبے سے کام کیا ہے۔ اس اخبارکی حقیقت اور کردارمیں کوئی فرق نہیں آیا۔