نواز شریف کی واپسی کیلئے حلف نامہ ضمانت

اسلام آباد (نا مہ نگار) معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی کابینہ کے فیصلے کی روح کو برقرار رکھا ہے، ہمیں نواز شریف کی واپسی کی ضمانت حلف نامے کی صورت میں مل گئی، انڈیمنٹی بانڈ کی شرط کو معطل کیا گیا مسترد نہیں، اب اگر سابق وزیراعظم نواز شریف واپس نہ آئے تو عدالت کے مجرم ہوں گے اور قانون کی گرفت میں آجائیں گے۔ اتوار کو اسلام آباد میں اٹارنی جنرل انور منصور کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہاکہ رات دیر گئے ہائی کورٹ کا مختصر فیصلہ آیا ، وزارت داخلہ کو جب نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا آرڈر موصول ہوا تو فوری طور پر کارروائی شروع کی گئی، کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے سفارشات کابینہ کے سامنے رکھیں تھی۔ انہوں نے کہاکہ سفارشات کے مطابق سزا یافتہ مجرم کا قانون کے مطابق ای سی ایل سے نام نہیں نکالا جا سکتا، لیکن انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک دفعہ اجازت دینے کی سفارش کی گئی، سفارشات کے مطابق چار ہفتوں کی اجازت دینے کا کہا گیا صحت یاب ہوکر نواز شریف واپس آئیں گے۔ شہزاد اکبر نے کہاکہ سزا یافتہ کی واپسی کویقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے، کسی کے ماضی کو دیکھ کر ایسا فیصلہ کیا جاتا ہے، ماضی میں یہ وعدے توڑتے رہے۔ جو لوگ نواز شریف سے متعلق بات کرتے ہیں کہ وہ 3مرتبہ کے وزیراعظم رہے تو انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سابق وزیراعظم سپریم کورٹ آف پاکستان سے صادق و امین کی سند حاصل نہیں کر سکے تھے، انھوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ یہ صادق اور امین نہیں ہیں، نواز شریف کے سمدھی اور دو بیٹے مفرور ہیں، انڈیمنٹی کی شرط ان کے ماضی کو دیکھتے ہوئے بہت ضروری تھی، ہمارا ماننا ہے لاہور ہائی کورٹ نے کابینہ کے ایک دفعہ اجازت کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔ انہوں نے کہاکہ چار ہفتوں کی اجازت کا فیصلہ بھی برقرار رکھا گیا، انڈیمنٹی کی جگہ لاہور ہائی کورٹ نے انڈرٹیکنگ کی شرط رکھ دی، بیان حلفی کی خلاف ورزی کی گئی تو یہ سنگین جْرم ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ بیان حلفی کی خلاف ورزی سے ان کا مستقبل بھی متاثر ہوگا، وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ ضمانتی بانڈ کی قانونی حیثیت نہیں تھی لیکن ہمیں نواز شریف کی واپسی یقینی بنانی تھی لیکن لاہور ہائیکورٹ نے حلف نامہ طلب کرلیا جس کے بعد اگر نواز شریف علاج کے بعد وطن واپس نہیں آئیں گے تو قانون کی گرفت میں آجائیں گے۔ لاہور ہائی کورٹ فیصلہ کابینہ کے فیصلے کی توثیق کرتا ہے، انڈیمنٹی بانڈ ریکوری کے لئے نہیں مانگا گیا تھا، اب اگر یہ واپس نہیں آتے تو یہ عدالت کے مجرم بھی ہونگے۔ شہزاد اکبر نے کہاکہ حکومت کا یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ عام انسان اور ان جیسے لوگوں کے لئے ایک ہی قانون ہو، اس ملک میں امیر اورغریب کیلئے الگ الگ قانون نہیں، یہ عام کیسزمیں سرکاری مہمان نہیں تھے یہ کرپشن کے کیسزمیں بند تھے، ظاہر ہے ہمیں دوسرے ملک کو بتانا پڑے گا کہ ہمارا سزا یافتہ شخص آپ کے پاس ان شرائط پر آرہا ہے، سزا یافتہ شہریوں کی حوالگی کا اصول مختلف ہے۔ شہزاد اکبر نے کہاکہ ہمیں ابھی تک فیصلے کی آفیشل کاپی نہیں ملی، آفیشل کاپی وزارت داخلہ کو ملے گی ای سی ایل سے نام وہ نکالے گی، حتمی فیصلہ کابینہ کرے گی، منگل کو اجلاس میں کابینہ کے سامنے معاملہ رکھا جائے گا۔ شہزاد اکبر نے کہاکہ کابینہ پہلے ہی ون ٹائم اجازت دے چکی ہے، عبوری آرڈر کو بھی چیلنج کیا جا سکتا ہے لیکن وہ کابینہ کا فیصلہ ہوگا، وزارت داخلہ نے صرف نوٹیفائی کرنا ہے، مخصوص حالات میں ایک بار اجازت دی جا سکتی ہے، حکومت فیصلے پر سو فیصد متفق ہوتی ہے یا نہیں یہ کابینہ فیصلہ کرے گی، میمورنڈم پر کل تک فیصلہ کریں گے، شہزاد اکبر نے کہاکہ دیکھیں گے کہ کیا پرانے میمورنڈم دکھا کر جا سکتے ہیں۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ ہائی کورٹ کے آرڈر میں چند سنگین چیزیں لکھی گئی ہیں، عدالت نے کہا اگر نواز شریف ون ٹائم اجازت مانگیں گے تو کیس سنا جائے گا، انہوں نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ ون ٹائم اجازت ہے، ان کا پچھلاٹریک ریکارڈ صحیح نہیں ہے، عدالت نے اس لئے انڈرٹیکنگ لی کہ عدالت کو بھی ان پر یقین نہیں تھا۔ انہوں نے کہاکہ عدالت نے بانڈ کا اشو ختم کر دیا، عدالت نے کہا بانڈ کا اشو انڈر جوڈیشل سکروٹنی آئے گا، اگر نواز شریف کی صحت ٹھیک نہیں ہوتی تو ظاہر ہے دوبارہ معاملہ عدالت جائے گا، پھر دیکھا جائے گا کہ کیا وہ باہر جانے کا بہانہ کر رہے ہیں یا واپس نہیں آنا چاہتے، اگر واپس آنے سے گریز کریں گے تو انڈیمنٹی بانڈ سے بھی زیادہ سخت ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ نواز شریف اور شہباز شریف نے گارنٹی کے طور پر خود کو عدالت میں گروی رکھوا دیا ہے، گروی رکھوانے سے یہ ایکسپوز ہوجائیں گے، واپس نہ آنے کی صورت میں توہین عدالت کی کاروائی شروع ہوجائے گی۔ انہوں نے کہاکہ انشور کرانے کا مطلب یہ ہے بندہ اپنے کندھے پر بوجھ لے رہا ہے، واپس نہ آئے تو عدالت صادق اور امین کے پیرائے کی طرف جائے گی، حکومت نے جو باتیں کہی تھیں ان ہر پورا عملدرآمد ہوا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ ابھی ہائی کورٹ نے کیس مزید سننا ہے، انڈیمنٹی بانڈ کا معاملہ بھی عدالت سنے گی، اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ شارٹ آرڈر نہیں انٹیرم آرڈر ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا ہے کہ نوازشریف کے حوالے سے عدالت کا فیصلہ حکومت کی جیت ہے۔ کابینہ کا پورا موقف عدالتی حکم نامے میں شامل ہے۔
معاون خصوصی احتساب، اٹارنی جنرل

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...