بنت ہوا کی عصمتیں لٹنے کے سانحے ، معصوم کلیاں درندہ صفت لوگوں کے ہاتھوں مسلے جانے اور ننھے فرشتوں کی معصومت شیطانیت کے بھینٹ چڑھنے کے واقعات میں ہوش ربا اضافہ اور ہر سانحے کے بعد واویلا اور پھرمہیب سناٹا ہماری ریاستی اور معاشرتی کمزوریوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ہمارے ہاں جب بھی کوئی ایسا حادثہ ہوتا ہے اسکے بعد بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن کچھ دنوں بعدسب بھول بھال کے اگلے کسی سانحے کے ہونے تک منظر سے غائب ہو جاتے ہیں اگر ہم نے سر عام وحشی، درندوں کو لٹکایا ہوتا تو آج ہماری عورتیں ، بچیاں اور بچے اتنے غیر محفوظ نہ ہوتے ۔ تاریکی کے اس دور میں کہیں ہلکی سی امیدسندھ پولیس کے انسپکٹر محمد بخش جیسے لوگ بھی ہیںجنہوں نے اپنی بیٹی کو آگے رکھ کے موقع پہ پہنچ کے تمام مجرموں کو پکڑ کے بہادری کی ایک نئی مثال قائم کی ۔ سلام ہے ایسے میرے ملک کے لوگوں پر جن کی وجہ سے اتنے اندھیرے ہونے کے باوجود امیدکی روشنی صبح نو کا پیغام دیتی نظر آتی ہے ۔
کچھ روز پہلے کراچی سے ایک مجبور خاتون کو نوکری کا جھانسہ دیکر 4 سالہ بیٹی کے ہمراہ کشمور لے جایا گیا۔ وہاں پہلے 3 ملزمان نے عورت کا مسلسل ریپ کیا۔ پھر ملزمان نے بچی روک کر خاتون سے کہا کہ کراچی میں آپکے ساتھ جو دوسری خاتون تھی، اس کو لاؤ تو بچی آپ کو واپس کریں گے۔خاتون باہر نکل کر سوچ بچار کے بعد پولیس کے پاس چلی گئی۔ ڈیوٹی پر موجود اسسٹنٹ سب انسپکٹر محمد بخش نے اس کی روداد سنی اور گھر سے اپنی بیٹی کو بلایا۔ اس کو ’دوسری خاتون‘ بناکر متاثرہ خاتون کے ساتھ روانہ کردیا اور خود نفری لیکر پیچھے چل پڑا۔ جیسے ہی دونوں خواتین اندر گئیں، پیچھے سے پولیس بھی گھس گئی۔ ایک ملزم موقع سے گرفتار اور دو بعد میں گرفتار ہوگئے مگر وحشی، درندے اس دوران 4 سالہ بچی کا بھی ریپ کرچکے تھے۔محمد بخش اور ان کی بیٹی ڈھیروں داد و تحسین کے حقدار ہیں جنہوں نے کسی اور کی بیٹی کو بچانے کیلئے اپنی بیٹی کو خطرے میں ڈالا ۔
کہتے ہیں ایک رات سلطان محمود غزنوی کو کا فی کوششوں کے بعد بھی جب نیند نہیں آئی تو اپنے غلاموں سے کہنے لگے لگتا ہے کہ کسی مظلوم پر آج کوئی ظلم ہو رہا ہے تم لوگ گلیوں میں پھیل جائو اور اگر کوئی فریادی نظر آئے تو اسے میرے پاس لے آئو ۔ تھوڑی دیر بعد وہ سب واپس آکے کہنے لگے سلطان ہمیں کوئی بھی فریادی نہیں ملا آپ آرام سے سو جائیں ۔ سلطان کو جب پھر بھی نیند آئی تو وہ کپڑے بدل کر خود محل سے باہر نکلا محل کے پیچھے کی طرف حرم سرا کے نزدیک انہیں کسی کی فریاد سنائی دی اے اللہ سلطان محمود اپنے مصاحبوں کے ساتھ محل میں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے اور محل کے عقب میں مجھ پہ یہ ظلم توڑا جا رہا ہے ۔ سلطان نے کہا کیا بات کر رہے ہو میں محمود ہوں اور تمہاری فریاد رسی کیلئے آیا ہو ں مجھے بتائو کیا ظلم ہوا ہے تمہارے ساتھ، آپکے خواص میں سے ایک شخص جس کا نام میں نہیں جانتا ہر رات میرے گھر آتا ہے اور میری بیوی پر ظلم و تشدد کرتا ہے ۔ اس وقت وہ کہاں ہے سلطان نے پوچھا شاید اب وہ چلا گیا ہو وہ بولا ۔ پھر سلطان نے کہا دوبارہ جب وہ آئے تو فورا مجھے اطلاع کر دو ۔ پھر سلطان نے محل کے دربان کو فریادی دکھایا اور کہا جب بھی یہ دربار آئے اسے سیدھا میرے پاس پہنچا دو اگر میں نماز کی حالت میں بھی ہوں تو بھی پرواہ مت کرنا ۔
اگلی رات فریادی سلطان کے پاس آیا اور بتایا کہ وہ شخص اس وقت میرے گھر میں ہے سلطان اسی وقت تلوار ہاتھ میں لئے اس شخص کے ساتھ چل پڑا اور جب اسکے گھر کے قریب پہنچا تو اس سے کہا کہ گھر کے سارے چراغ بھجا دو پھر اندھیرے میں ہی فریادی کے گھر گھس کر اس شخص کا سر تن سے جدا کر دیا پھر سلطان نے حکم دیا کہ اب چراغ روشن کر دو سلطان نے جب اس شخص کا چہرہ دیکھا جو فریادی کی بیوی پہ ظلم کرتا تھا تو سجدے میں گر گیا ۔ گھر کے مالک کو کہا گھر میں کچھ کھانے کو ہے تو لے آئو مجھے بہت سخت بھوک لگی ہے ۔ آپ جیسا سلطان مجھ غریب کے گھر کا کھانا کھائے گا فریادی حیرت سے بولا سلطان نے کہا جو کچھ بھی ہے لے آئو ، وہ شخص ایک سوکھی روٹی اٹھا لایا جسے سلطان نے بڑی رغبت سے کھایا ، فریا دی سلطان سے حیران ہو کے پوچھنے لگا کہ آخر چراغ کو بجھانا ، سجدہ کرنا اور روٹی طلب کرنے کے پیچھے ماجرا کیا ہے ۔سلطان نے کہا میں نے جب تمہاری داستان سنی تو سوچا کہ میری سلطنت میں ایسا ظلم کرنے کی ہمت صرف میرے کسی بیٹے کو ہو سکتی ہے اندھیرا کرنے کو اس لئے کہا کہ پدرانہ شفقت میرے انصاف کے راستے میں حائل نہ ہو جائے چراغ جلنے پر جب میں نے دیکھا کہ وہ میرا بیٹا نہیں ہے تو میں سجدہ شکر بجا لایا ، کھانا اس لئے مانگا کہ جب سے مجھے تمہارے ساتھ ہونے والی زیادتی کا علم ہوا میں نے اللہ کے سامنے قسم کھائی تھی کہ جب تک تمہیں انصاف نہیں مل جاتا میرے اوپر روٹی حرام ہے اس وقت سے اب تک میں نے نہ کچھ کھایا تھا نہ پانی پیا تھا ۔
یہ تھے ہمارے وہ حکمران جنہوں نے انصاف کا دامن ہمیشہ تھامے رکھا او ر بہنوں ، بیٹیوں کی عزتوں کے محافظ بن کے تاریخ میں امر ہوگئے ہمیں آج بھی ضرورت ہے ایسے حکمرانوں اور منصفوں کی جو مصلحتوں کا شکار ہوئے بغیر عوام کی جان، مال اور عزتوں کی حفاظت کو مقدم جانیں اور آئندہ کسی نئے سانحے کا انتظار کرنے کی بجائے سزائے موت کا قانون نافذ کریں ۔ درندگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام صرف اسی صورت ممکن ہے کہ ریاست کو آگے بڑھ کے سخت سے سخت سزائوںکے نہ صرف قانون لانے ہوں گے بلکہ ان پہ سختی سے عمل کروانے سے ہی ہم اپنی عورتوں کی عزتوں کو پامال ہونے سے بچا سکتے ہیں اور اپنی بچیوں ، بچوںکا مستقبل محفوظ بنا سکتے ہیں ۔