ہند وستانی تا ریخ کے مشہور کردار کھڑک سنگھ کو 1868 میں انگریز سرکار نے انکے آ بائی شہر پٹیالہ میں سیشن جج کے عہدے پر تعینات کر دیا۔قبل ازیں کھڑک سنگھ سچ اور جھوٹ کو پہچا ننے اور اپنے منصفا نہ فیصلوں کی بناپر علاقہ بھر میں انتہائی بلند پا یہ شہرت کے حا مل تھے۔ سیشن جج کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انکی عدالت میں پہلا مقدمہ قتل کا پیش ہوا۔4 آدمیوں پر ایک کسان کو قتل کرنے کا الزام تھا۔مد عیہ کرانتی کور کا کہنا تھا کا ان چاروں ملز ما ن نے مل کر اسکی آنکھوں کے سامنے اسکے شوہر کو قتل کیا ہے۔اسکا کہنا تھا کہ ایک کے ہا تھ میں برچھا تھا، ایک کے پاس درانتی اور باقی دو کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں۔مد عیہ کے بیان کے بعد کا لے کوٹ میں ملبوس وکیل صفائی کھڑا ہوا اور مد عیہ سے سوال کیا کہ کیا آپ بتا سکتی ہیں ان میں سے کس کے ہاتھ میں برچھا اور کس کے پاس درانتی تھی؟مد عیہ نے بتایا کہ ان میں دائیں ہاتھ کھڑے ہوے سورن سنگھ کے ہاتھ میں برچھا تھا اور اسکے ساتھ کھڑے شاموں سنگھ کے ہاتھ میں درانتی جبکہ باقی دو نوں کے ہا تھوں میں لا ٹھیا ں تھیں،یہ سننے کے بعد وکیل صاحب نے بڑے فا تحا نہ انداز میں جج صاحب کو مخا طب کرتے ہو ئے کہا می لارڈ ر ! کیس کی مدعیہ اور مو قعے کی واحد گواہ کرانتی کورکا کہنا ہے کہ سورن سنگھ کے ہا تھ میں بر چھا ،شا موں سنگھ کے ہا تھ میں درانتی اور با قی دو نوں کے پاس لاٹھیاں تھیں جبکہ پولیس رپورٹ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ برچھا شاموں سنگھ کے اور درانتی سورن سنگھ کے ہا تھ میںجبکہ با قی دونوں کے ہا تھوں میں لا ٹھیاں نہیں بلکہ گنے تھے اور یوں جناب والا سارا واقعہ شک کی بنیا د پرگھڑا گیا ہے۔در اصل تو ان میں سے کسی کے پاس نہ تو کوئی بر چھا تھا اور نہ ہی در انتی۔ اور نہ ہی وہ اس قتل میں ملوث ہیں۔ لہذا میرے مو کلان بے گناہ ہیں انہیں بلا وجہ اس قتل میں گھسیٹا جا رہا ہے۔وکیل ابھی کچھ مزید شعلہ بیانی جھاڑنا چا ہ رہا تھا کہ جسٹس کھڑ ک سنگھ کے تیور بدلے اور انھوں اپنی گرجدار آواز میں پولیس کو مخا طب کر تے ہوئے پو چھا کہ یہ کالے کوٹ والا شخص کون ہے؟پولیس نے بتایا جناب یہ ملز موں کا وکیل ہے۔کھڑک سنگھ نے اعلان کیا کہ اب فیصلہ سنا یا جا تا ہے ۔اور فیصلہ یوں سنا یا کہ چاروں ملز مان قاتل ہیں اور انھوں نے کرا نتی کور کے شوہر بلونت سنگھ کا قتل با لکل اسی طرح کیا ہے جیسا کہ موقع کی واحد گوہ امد عیہ کرانتی کور نے اپنے بیا ن میں کہا ہے ۔مگر ان چا روں کے ساتھ ایک اور بھی ان کا ساتھی ہے ور وہ ہے یہ کا لے کوٹ والا ان کا وکیل۔لہذا ان چاروں ملز موں کے سا تھ اس وکیل کو پھا نسی چڑھا دیا جائے۔کہتے ہیں کہ جسٹس کھڑک سنگھ کے اس فیصلے کی گو نج نہ صرف پٹیالہ بلکہ ارد گرد کے علا قوں میں اس قدر سنا ئی دی کہ پھر اس علا قے میں قتل تو کسی کو کوئی جرم کر نے کی جرأت نہ ہوئی اور اگر کسی سے کوئی جرم سر زد ہو بھی گیا تو کو ئی وکیل کسی مجرم کی صفا ئی میں پیش نہ ہوا۔بد قسمتی سے ہما رے مادر وطن پا کستان میں عدل و انصاف کی ٹیڑھی اینٹ کی بنا پر اس معا شرے کا ہر شعبہ اور ہر فرد بگا ڑ کا شکا ر دکھا ئی دیتا ہے اور یہ بگاڑ دن بدن پھلتا پھو لتا جا رہاہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہما رے مو جو دہ نظا م انصا ف کا سب سے پہلا زینہ پو لیس ہے جس کی اپنی ہی اینٹ سب سے ٹیڑھی ہے،اوراس قوم کی بد بختی یہ رہی کہ ہر حکو مت اپنے بلند و با نگ دعو و ں کے با وجود پولیس کے ٹیڑ ھے پن کو ٹھیک نہیں کر سکی اور نہ ہی انصاف کے سب سے مر کزی فو رم یعنی عدا لتی نظا م کو بہتر بنا نے میں کو ئی موئثر عملی اقدامات اٹھا سکی ۔مگر یہا ں یہ با ت انتہا ئی اہمیت کی حا مل ہے کہ تھانہ ،کچہری میں مو جود کرپشن اور نا انصافی سے ہر شخص نہ صرف نالاںہے بلکہ اسکی گونج بھی ہر جگہ سنا ئی دیتی ہے مگر اس سا رے نظام انصاف میں ایک بہت اہم کردار کا کہیں تذکرہ نہیں کیا جا تا ہے جو حصول انصاف میں سب سے زیادہ روڑے اٹکاتا نظرآتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عدالتی محاذ پر کسی حقدار کو اسکا حق لے کے دینے والا بھی وکیل ہی ہوتا ہے مگر یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دوسری طرف مجرم کے جرم سے پوری طرح آشنا ہو نے کے باوجود اپنی پو ری تگ و دوسے اسے سزا سے بچاکے اسکی مزیدمجر مانہ سر گرمیوں کیلئے اسے آ زادی دلا نے والا بھی وکیل ہی ہوتا ہے ۔ سزا و جزا کا عمل صرف اور صرف اس ٹی وی و اخبارات کی سر خیاں بننے والے واقعے تک محدود ہو جا تا ہے ۔د راصل ہم اس وقت پچھتا نے کے عادی ہو چکے ہیں جب چڑ یاں کھیت چگ جا تی ہیں ،ہم اس وقت تک دریا کا بو سیدہ پل گرا کر نیا نہیں بناتے جب تک وہ انسانی جانوں کا ضیاع کر کے نیچے نہیں آ گرتا۔جرائم کے سر اٹھاتے نو خیز پودوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے مؤثر اقدامات اور اس بارے مزید قانون سازی کے بارے کوئی سو چنے کو تیار نہیں۔سب :ڈنگ ٹپائو :پرو گرام پر سختی سے عمل پیرا ہیں۔مگر یاد رکھیںکہ خدا بڑا ر حمان و رحیم ہے مگر ظا لمو ں پر نہیں۔ اعتذار:میرے سابقہ کالم:جنرل ضیاء کو کمرے میں بند کر دیا گیا:میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھا نسی کی تا ریخ سہوأ 4 اپریل1979 کی بجا ئے7 197لکھی گئی ،جس پر معذرت خواہ ہوں۔