اسلام آباد ( عبداللہ شاد - خبر نگار خصوصی) مودی سرکار اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کیخلاف بدترین امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہے، بھارتی لڑکیوں کی جانب سے تبدیلی مذہب کے بعد مسلمان لڑکوں کیساتھ شادی کے تناسب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، برہمنوں کی چیرہ دستیوں سے تنگ دلت برادری بھی بڑی تعداد میں ہندو ازم کو خیر باد کہہ کر کے اسلام کے دائرے میں شامل ہو رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی اور آر ایس ایس سرکار لو جہاد (Love Jihad ) کے تحت ’’ مذہبی آزادی ایکٹ 2020 (ترمیم شدہ) ‘‘ کے نام سے سخت ترین قانون سازی کی تیاری میں ہے۔ مدھیہ پردیش کی شیو راج سرکار 1968 کے ایکٹ میں ترمیم کرے گی اور اسے دسمبر یا جنوری تک پارلیمان اور بھارتی صدر سے پاس کرا لیا جائیگا۔ اس قانون کی بدولت کوئی بھی ہندو کسی مسلمان سے شادی نہیں کر سکے گا اور تبدیلی مذہب کیلئے ’’ کلکٹر ‘‘ ( ڈپٹی کمشنر) سے خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری ہو گا۔ نئے قانون کے بعد اگر کوئی ایسا کرے گا تو 5 سال اور 10 ہزار روپے جرمانہ کئے جائے گا۔ 1968 کے قانون کے مطابق ایسا کرنے والے کو 2 سال قید ہوتی تھی جبکہ تھانے سے ضمانت ممکن تھی، نئے قانون کے مطابق یہ ’’جرم‘‘ کرنے والے فرد کو محض عدالت سے ضمانت مل سکے گی۔ اترپردیش کی یوگی ادتیہ ناتھ سرکار بھی لو جہاد اور ’’ بہو لائو بیٹی بچائو‘‘ مہم کے تحت مسلمانوں کیخلاف شر انگیزی سے سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، ہر روز صوبے میں مسلمانوں کیخلاف متشدد واقعات پیش آتے ہیں۔
مودی سرکار کا ’’لو جہاد‘‘ کیخلاف سخت ترین قانون سازی کا فیصلہ
Nov 18, 2020