اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بنچ میں ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز‘ کیپٹن صفدر کی سزا کے خلاف اپیلوں میں وکلاء کے دلائل جاری، نیب کی طرف سے مزید دلائل کیلئے مہلت کی استدعا پر سماعت ملتوی کردی گئی۔ سماعت کے دوران مریم نواز اور کیپٹن صفدر لیگی قیادت کے ساتھ کمرہ عدالت میں موجود تھے جبکہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی جانب سے عرفان قادر ایڈووکیٹ، نیب کی جانب سے عثمان غنی چیمہ، سردار مظفر، معظم حبیب اور بیرسٹر رضوان عدالت میں پیش ہوئے۔ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے وکیل عرفان قادر نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہاکہ کچھ چیدہ چیدہ چیزیں بتانا چاہوں گا، اور کچھ چیزیں جمع کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ آپ نے جو بحث کرنا ہے وہ آپ کریں تاکہ ریکارڈ کا حصہ ہو۔ موقع پر عدالت نے نیب کو دلائل دینے کی ہدایت کی۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ ایک ہی چارج میں تینوں ملزمان کو سزا ہوئی،6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت نے اس ریفرنس میں سزا سنائی۔ عدالت نے نیب پراسیکیوٹرکو ہدایت کی کہ آپ پہلے مرکزی اپیل پر بحث کریں۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ پراسیکیوشن کا کیس یہ ہے کہ نواز شریف ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے مالک ہیں، یہ آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کے ذریعے خریدے گئے، مریم نواز بینفشل اونر تھیں جنہوں نے اونر شپ چھپانے میں نواز شریف کی مدد کی،2 فروری 2006ء کی ایک ٹرسٹ ڈیڈ پیش کی جو جعلی ثابت ہوئی، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے جعلی ٹرسٹ ڈیڈ پر بطور گواہ دستخط کیے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ آف شور کمپنیوں کے ذریعے خریداری میں اونر شپ چھپی ہوتی ہے، آپ نے شواہد کے ذریعے اونرشپ ثابت کرنی ہے، میڈیا نالج پر نہیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ ہم یہاں پر صرف زبانی نہیں بلکہ دستاویزات کے ساتھ سب کچھ جمع کریں گے۔ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ نواز شریف کے اوپر الزام کیا ہے؟۔ اپارٹمنٹ لینا تو کوئی غلط نہیں۔ عدالت نے کہاکہ اگر مرکزی ملزم کے خلاف شواہد نہیں ہونگے تو بنفیشری کے خلاف کیس کیسے ہوگا ؟۔ آپ کا کہنا ہے کہ دونوں کمپنیوں کی مالک مریم نواز ہے؟ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی والد اپنے بیٹی کو کچھ دیتا ہے تو کیا کرنا ہوگا، کسی بھی کمپنی کے ڈائریکٹ ملکیت نہیں ہوتی، آپ نے شواہد سے بتانا ہے کہ یہ کمپنی کس کی ہے؟، میڈیا یا لوگوں سے نہیں شواہد سے آپ نے عدالت کو سب کچھ مطمئن کرنا ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ بنیادی سوال تو سورس آف انویسٹمنٹ کا ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے مریم نواز پر احساب عدالت میں عائد فرد جرم پڑھ کر سناتے ہوئے کہاکہ اپارٹمنٹ کیسے خریدے گئے، اس کا سورس نہیں بتایا گیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ اگر خریدار سورس نہ بتائے تو بیٹی پر جرم کیسے ثابت ہو گا؟، جرم میں معاونت کیسے ثابت ہو گی؟۔ عدالت نے کہاکہ اگر مرکزی ملزم سورس نہیں بتاتا تو کیا بنفیشری اونر سورس بتائے گا؟، مریم نواز نے دفاع میں کیا جواب دیا؟۔ عدالت نے کہاکہ سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا وہ ایک رائے ہے، ٹرائل ایک الگ چیز ہے، مریم نواز نے دفاع میں جو کہا وہ بتائیں؟۔ عدالت نے کہا اثاثہ خریدنے کے ذرائع تو مرکزی ملزم نے بتانے ہیں۔ مرکزی ملزم نواز شریف نے اگر نہیں بتائے تو کیا مریم نواز کی ذمہ داری ہے بتانا ؟۔ اس کیس میں مریم نواز کا دفاع کیا تھا؟، یہ سارا کیس نکلا ہی مریم نواز کے دفاع سے تھا۔ نیب پراسیکیوٹر نے پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کا بیان عدالت کو پڑھ کر سنایا۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ جو سوال پوچھا گیا وہ جواب یہ نہیں، آپ نے بتایا کہ ٹرسٹ کیسے آیا، عدالت نے کہاکہ پراپرٹیز کی ملکیت مریم نواز کی نہیں وہ کمپنی کی ہے، کیا کمپنی کی ملکیت مریم نواز نے قبول کرلی یا نہیں؟۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ مریم نواز نے ملکیت قبول کرنے سے انکار کیا، مگر خود کو ٹرسٹی قبول کیا۔ جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ آپ نے چارج میں لکھا ہے کہ آپ بینفشل اونر ہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ مریم نواز کہہ رہی ہیں کہ وہ ٹرسٹی ہیں۔ آپ نے اپنی بات اب شواہد سے ثابت کرنی ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ ان فلیٹس کا بیفیشل مالک کون ہے یہ کیسے ثابت کیا؟۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ ہم نے جو شواہد سے ثابت کیا اس کی تردید میں کوئی موقف نہیں آیا۔ عدالت نے کہا کہ پہلے آپ انہیں مالک ثابت کریں گے تو وہ ذرائع بتائیں گے نا۔ نیب پراسکیوٹرنے کہاکہ ہم نے برطانیہ کو خط لکھا جس کا جواب آیا کہ بینیفشل مالک مریم نواز ہیں۔ عدالت نے کہاکہ کیا نیب نے صرف ایک خط پر انحصار کرکے مریم نواز کو بینفشل مالک کہہ دیا؟۔ جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ آپ کسی کو ٹرائل میں عوامی تاثر پر قصور وار کہہ کر سزا نہیں دے سکتے۔ عدالت نے کہاکہ ٹرائل کورٹ میں ملزمان کی جانب سے جو اعتراض اٹھایا گیا وہ پارلیمنٹ سے ختم ہوگیا۔ آپ سے بار بار پوچھ رہے ہیں کہ آپ نے ملکیت کا ثبوت لانا ہے، آپ کسی کے خط پر کسی کو الزام نہیں دے سکتے، آپ کے پاس تو فوٹو کاپی آئی ہوگی، اوریجنل تو نہیں ہوگی۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اصلی ایگزیبٹ دستاویزات ہمارے پاس موجود ہیں۔ میں بنچ کے سوالات نوٹ کر رہا ہوں، آئندہ سماعت پر اس حوالے سے جواب دوں گا۔ عدالت نے مریم نواز کی اپیل پر سماعت 24 نومبر تک ملتوی کر دی۔