پاکستان، چین، روس اور امریکہ پر مشتمل فورم ’’ٹرائیکا پلس‘‘ نے گزشتہ منگل کو اسلام آباد میں منعقدہ اپنے اجلاس میں جہاں افغان عبوری حکومت سے خواتین کے حقوق اور پڑوسی ملکوں کی سلامتی سے تعلق رکھنے والی داخلی و بیرونی ذمہ داریوں کے حوالے سے اہم مطالبات کئے وہاں عالمی برادری کو بھی واضح پیغامات دئیے کہ وہ افغان عوام کو سنگین بحران سے بچانے کیلئے مزید اقدامات کرے، افغانستان کی آزادی' خودمختاری اورجغرافیائی سلامتی کے احترام پر مبنی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ملحوظ رکھے، منشیات سے تعلق رکھنے والے جرائم ختم کرے اور علاقائی استحکام کی اہمیت محسوس کرے۔ اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس کے اختتام پر جاری کئے گئے اعلامیے میں ٹرائیکا پلس نے طالبان پر زور دیا کہ وہ ہم وطن افغانوں کے ساتھ مل کر ایسی جامع اور نمائندہ حکومت کی تشکیل کیلئے اقدامات کریں جو تمام افغانوں کے حقوق کے احترام اور افغان معاشرے کے تمام پہلوئوں میں خواتین اور لڑکیوں کی شرکت کیلئے مساوی حقوق کا ذریعہ بنیں۔ اعلامیے میں اعتدال پسند اور دانشمندانہ پالیسیوں کے نفاذ کی حوصلہ افزائی کیلئے طالبان کے ساتھ ایسے عملی روابط جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا جو جلد از جلد ایک مستحکم اور خوشحال افغانستان کے حصول میں معاون بنیں۔ اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ خواتین اور لڑکیوں کیلئے ہر سطح پر تعلیم تک رسائی ایک بین الاقوامی ذمہ داری ہے اور طالبان کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ ملک بھر میں تعلیم تک مکمل اور مساوی رسائی فراہم کرنے کیلئے کوششیں تیز کریں۔ اعلامیے میں ہنگامی امداد کی فراہمی جیسے شعبوںمیں کوآرڈی نیٹر کے طور پر اقوامِ متحدہ کے عظیم کردار کا خیرمقدم کیا گیا۔ اقوامِ متحدہ اور اسکی ایجنسیوں پر زور دیا گیا کہ وہ افغان عوام کی مدد اور بین الاقوامی برادری کے وعدوں کی تکمیل کیلئے پروگرام تیارکریں۔ ’’ٹرائیکا پلس‘‘ اجلاس کے شرکا اس حقیقت سے یقینی طور پر آگاہ ہیں کہ افغان معیشت تباہی کے دہانے پر ہے، سرکاری اہلکاروں اور ملازمین کو اشرف غنی حکومت کے زوال سے کئی ماہ پہلے سے تنخواہیں ملنا بند ہو چکی ہیں، خوراک کی قلت ہے، خون منجمد کرنیوالی سردیوں کی آمد آمد ہے۔ اس حوالے سے عشروں کی جنگ سے چور اس ملک میں۔ اس حوالے سے پاکستان کا یہ موقف وزن رکھتا ہے کہ افغانستان کو اربوں ڈالر کے اس منجمد سرمائے تک رسائی دی جائے جو اشرف غنی دور حکومت سے امریکی بینکوں میں موجود ہے۔ اعلامیہ میں انسانی بحران سے نمٹنے میں مصروفِ عمل اداروں کی جانب سے ملک میں کرنسی کی عدم دستیابی کے سنگین بحران سے متعلق تشویش کا اظہار کیا گیا اور ملک میں بینکنگ کی قانونی خدمات تک رسائی آسان بنانے پر توجہ دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ بینکنگ نظام سابق اشرف غنی حکومت کے وفاداروں کے ہاتھ میں رہا ہے جس سے طالبان کی مشکلات کم ہونے میں نہیں آ رہیں۔ پاکستان افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے مسلسل ہمسایہ ملک کی مشکلات کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔اس دوران اگرچہ پاکستان خود معاشی مسائل کا شکار ہے لیکن اس نے خطے کے استحکام کی خاطر قابل رشک کردار نبھایا ہے۔ ٹرائیکا اجلاس میں شریک ممالک افغانستان کی مدد کر سکتے ہیں، افغانستان میں بد امنی برقرار رہنے سے ان ممالک اور عالمی امن کیلئے مسائل ہو سکتے ہیں جنہیں اس کانفرنس میں زیر غور لایا گیا۔ افغانستان کی نئی حکومت اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال نہ ہونے دینے کا وعدہ کر چکی ہے ، عالمی برادری جانتی ہے کہ افغانستان کی مدد نہ کی گئی تو وہاں داعش اپنے قدم جما سکتی ہے۔ مشترکہ اعلامیہ افغانستان سے ضمانتیں لینے اور عالمی مطالبات کا احاطہ کرتا ہے لیکن اس میں وہ نکات ضرور شامل ہونے چاہئیں تھے جن میں عالمی برادری کی طرف سے عملی مدد سامنے آتی۔
افغان وفد کی پاکستان آمد کے موقع پر دیا گیا وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان بھی قابل توجہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کو مذکورہ کیفیت میں اپنی اجتماعی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے۔ اس وقت، جبکہ افغانستان میں دہشت گرد حملوں کی اطلاعات ہیں، نہ صرف طالبان سے ہر طرح کی دہشتگرد تنظیم کو جگہ دینے سے انکار کا مطالبہ کرنا ہر طرح سے درست ہے بلکہ افغانستان کو بھوک، بیماری اور ہلاکتوں کے خطرات سے بچانے کی بین الاقوامی تدابیر بھی ضروری ہیں۔ کیونکہ ایسی صورت میں خطے کے تمام ممالک سنگین خطرات کی زد میں آسکتے ہیں۔ عالمی برادری کو اس باب میں تیزی سے حرکت میں آنا ہوگا۔ طالبان کے غلبہ کی راہ اگرچہ امریکہ نے خود ہموار کی مگر طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے معاملے میں ابھی تک امریکہ ، یورپ اور دوسرے ممالک پس و پیش سے کام لے رہے ہیں جبکہ بھارت افغانستان کو دوبارہ بدامنی کی جانب دھکیلنے کی سازشوں میں مصروف ہے تاکہ اسے پھر افغان سرزمین پاکستان کی سلامتی کے خلاف استعمال کرنے کا موقع مل سکے۔ اس مقصد کیلئے بھارت نے عالمی دہشتگرد تنظیم داعش کی سرپرستی کر کے اسکے ذریعے افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
پاکستان اسی تناظر میں عالمی برادری کو باور کرا رہا ہے کہ علاقائی اور عالمی امن کا دار و مدار افغانستان کے امن پر ہی ہے اس لئے افغانستان کو اقتصادی مسائل کی صورت میں سامنے آنیوالے نئے بحران سے بچایا جائے اور عالمی برادری افغانستان کی ہرممکن معاونت کرے۔ پاکستان نے اس مقصدکے تحت ہی خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ ایک ہفتہ قبل کا ٹرائیکا پلس کا اجلاس بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھا جبکہ اب بیجنگ اجلاس کا انعقاد بھی پاکستان کی میزبانی میں ہی ہو گا۔ دنیا کو اب بہرحال طالبان حکومت کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھانا چاہئے تاکہ افغان امن کے ذریعے علاقائی اور عالمی امن و استحکام کی ضمانت مل سکے عالمی ادارے مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ اگر بروقت افغانستان کے بحران کا تدارک نہ کیا گیا تو کوئی بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق افغانستان میں حالات دنیا کے سب سے بڑے انسانی المیے میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں اس ملک کی خوراک کی ضرورتیں دیگر بدترین متاثرہ ملکوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بڑھتی اور ایک شدید بحران کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ کئی سالوں کی خشک سالی کے سبب اقتصادی مندی پیدا ہوچکی ہے اور لوگوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے ایک تخمینے کے مطابق افغانستان میں 95 فیصد عوام خوراک کی کمی کا سامناکر رہے ہیں جبکہ دو کروڑ 30 لاکھ افراد کو شدید بھوک کا سامنا ہے موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی افغانستان کے کئی علاقوں سے قحط کی اطلاعات بھی موصول ہونا شروع ہو چکی ہیں اور اس وقت عالمی برادری نے آگے بڑھ کر فوری اقدام نہ کیا تو بحران جلد ہی ایک بڑے انسانی المیے میں تبدیل ہو کر پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ حالات کے دگرگوں ہونے کے بعد لاشوں پر سیاست کرنے سے بہتر ہے کہ جیتے جاگتے انسانوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جائے اور افغان طالبان سے اختلافات ایک طرف رکھ کر انسانیت کے نام پر افغان عوام کی مدد کی جائے اورطویل المیعاد منصوبہ بندی میں انہیں خود کچھ کرنے اور کمانے کے قابل بنانے کا اہتمام کیا جائے