اقبال کی دور اندیشی

Nov 18, 2021

مفکر پاکستان شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمداقبال کا144واں یوم پیدائش ہم نے بڑے جوش وخروش سے منایا۔ آزاد ملک کا خواب دیکھنے والے، سوئی ہوئی قوم کو خواب غفلت سے بیدارکرنے والے شاعر مشرق ڈاکٹرعلامہ محمداقبال بیسویں صدی کے معروف مفکر، شاعر،قانون دان، مسلم صوفی،مصنف اور تحریک پاکستان کی اہم شخصیت تھے۔ شاہین کا تصور، خودی کا فلسفہ دینے کے ساتھ ساتھ نظریاتی انتہا پسندی، فرقہ واریت جیسے اہم موضوعات ومعاملات پہ بھی انہوں نے قلم اٹھایا۔ انکی تصنیفات میں بال جبریل، اسرار خودی،بانگ درا، جاوید نامہ، ضرب کلیم، رموز بے خودی، زبورعجم، پیام مشرق،  اور ارمغان حجاز جیسی معروف کتابیں شامل ہیں۔میں نے کلیات اقبال اٹھائی یہ دیکھنے کیلئے کہ ایک صدی پہلے ہمارے کیا مسائل تھے اور اقبال نے اس کا کیا حل پیش کیا تھا لیکن میں اسے پڑھ کر دنگ رہ گئی۔جوآج کل کشمیرکے حالات ہیں اقبال اسکے بارے میں کیا فرماچکے تھے،
 آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر 
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایران صغیر
 مجھے ایسا لگاکہ جیسے کلیات میں کوئی ردوبدل کیاگیاہے مگر ایسا نہ تھا یہ حقیقت تھی ۔پھرکچھ ورق پلٹائے تو آج ہی کے امیراسلامی ممالک نظرآئے۔
جانتا ہوںمیں یہ امت حاملِ قرآں نہیں
 ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں
تھوڑا اور آگے بڑھی توامریکہ کے الیکشن کا بھی تذکرہ ملا وہ کچھ یوں تھاکہ۔
تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
یونائیٹڈنیشن اور ہماری اس سے جڑی توقعات پر ایک تفصیلی نظم موجود تھی جسے پڑھ کر میں حیران رہ گئی۔
اس میں کیا  شک ہے کہ محکم ہے ابلیسی  نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام
آئی ایم ایف اور موجودہ بینکاری کے نظام کے بارے میں بھی کیا خوب ان کی نظرتھی کہ انہو نے  فرمایا
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے
تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آج کل کے معاملات اسی طرح رواں دواں نہیں ہیں۔پھرشام اور فلسطین کا مسئلہ بھی اقبال نے آج کی آنکھ سے دیکھا
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار
پھر جہاں اقبال نے امریکہ سے معاہدہ کرتے افغان طالبان کا ذکرکیا وہیں ادھرکے مخالف دھڑوںکوبھی خبردارکرتے ہوئے کہا…؎
تری بے علمی نے رکھ لی ہے بے علموں کی لاج
عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان
اپنی خودی پہچان او غافل افغان
اورنیوز چینلز کے بعد انٹرنیٹ انڈسٹریز کا بھی مسئلہ یوں بیان کرتے ہیں۔
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
اقبال نے جب کسی عورت کے حق میں بات کی تو وہ مجھے اس کے سب سے بڑے وکیل لگے لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کی راہنمائی بھی خوب کی اورکہا
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ 
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
اورآخر میں عورتوںکیلئے حتمی بیان یوں دیا کہ علم ضرور حاصل کرو مگر پہلے کون سا علم ،یہ بھی انہوں نے بیان کیا۔
 جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
حد تویہ ہے کہ اقبال ایک جگہ ہماری یونیورسٹی کا بھی نقشہ کھینچتے نظرآتے ہیں اورہماری ذہنی غلامی پرطنزکئے بغیر نہ رہ سکے۔
محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی
موسیقی و صورت گری و علم نباتات
اقبال یہاں نام نہ لے علم خودی کا
موزوں نہیں مکتب کیلئے ایسے مقالات
 اسی طرح میں کلیات کے صفحات پلٹتی رہی ہرجگہ ایساہی محسوس ہواکہ گویا یہ ایک صدی پرانی نہیں بلکہ آج کی بات ہوپھر مجھے سمجھ آئی کہ ہمارے مسائل اور کمزوریاںسو سال پہلے بھی وہی تھیں جو آج ہیں بلکہ شاید ان میں کچھ اضافہ ہی ہوا ہو۔ لیکن اقبال نے اپنی شاعری میں ان کا حل بھی پیش کردیاتھا اقبال جو سچائی، بہادری، عدل خودی اور عشق رسول ودیں کا سبق دے کرگئے ہیں اسی میں ہماری کامیابی کا راز مضمرہے۔
سبق پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیاجائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
میرے ساتھیو گوگل میں عربی فونٹ میں شاعر الہندی ’’محمد اقبال‘‘ لکھیں توہمیں پتہ چلے گا کہ عرب علماء اقبال کو’’ فیلسوف الاسلام‘‘ ’’شاعر الاسلام ‘‘ مفکراسلامی نابغہ الشرق’’ شاعر الحکیم‘‘ لکھ رہے ہیں یوٹیوب اقبال کی توصیف میں عرب سکالرز کی ویڈیوبھری پڑی ہیں۔

مزیدخبریں