مقبوضہ کشمیر میں غاصب بھارتی فوج نے چار کشمیری شہید کردیئے

Nov 18, 2021

 بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے لیکن 5 اگست 2019ء سے اس نے ایک ایسی صورت اختیار کی ہے جس کے تحت مقبوضہ وادی کے تمام باسی اپنے ہی گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔ بھارت کی غاصب سکیورٹی فورسز اس کے باوجود جب چاہتی ہیں نہتے کشمیریوں کو ان کے گھروں سے نکال کر تشدد کا نشانہ بناتی ہیں اور ان میں سے کئی ایک کو شہید بھی کردیا جاتا ہے۔ اس سب پر بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کی خاموشی صرف افسوس ناک ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اگر واقعی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میںسنجیدہ ہوں اور ان سے متعلق بھارت کے خلاف سخت کارروائی کریں تو کوئی وجہ ہی نہیں ہے کہ غاصب سکیورٹی فورسز کو نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم سے روکا نہ جاسکے۔
تازہ کارروائی میں غاصب بھارتی فوج نے سری نگر میں کشمیری تاجر اور ڈاکٹر سمیت مزید 4 افراد کو شہید کر دیا ہے۔ فوج کی ریاستی دہشت گردی میں شہید ہونے والوں میں ترال کے سمیر احمد تانترے، بانہال کے امیر، حیدر پورہ کے الطاف احمد بٹ اور ڈاکٹر مدثر شامل ہیں۔ انسپکٹر جنرل پولیس وجے کمار نے دعویٰ کیا ہے کہ جن چار افراد کو مارا گیا ہے ان میں غیر ملکی عسکریت پسند، اس کے دوساتھی اور عمارت کا مالک الطاف احمد بٹ شامل ہے۔ غاصب سکیورٹی فورسز نے شہداء کی نعشیں لواحقین کو فراہم کرنے سے بھی انکار کر دیا جس کے بعد اہل خانہ نے الطاف کی میت کی واپسی کے لیے برزلہ میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس واقعے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ قابض بھارتی افواج کے 4 مزید کشمیریوں کو ماورائے عدالت شہید کرنے کی پاکستان شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ یکم اکتوبر2021ء سے اب تک بھارتی قابض افواج جعلی مقابلوں اور نام نہاد تلاشی و چھاپوں کی کارروائیوں میں 25 نہتے کشمیریوں کو شہید کرچکی ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق، غیرقانونی طور پر بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر میں ماورائے عدالت قتل، غیرقانونی حراستیں، قید وبند کی صعوبتیں، یومیہ بنیادوں پر ہراساں کرنے اور بنیادی آزادیوں پر قدغنوں کا سلسلہ معمول بن چکا ہے۔ پاکستان عالمی برادری پر زور دیتا ہے انسانی حقوق اور عالمی قانون کی خلاف ورزیوں پر بھارت کو کٹہرے میں کھڑا کرے۔
 ادھر، وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان کا مسلسل موقف رہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن جموں و کشمیر کے تنازع کے منصفانہ حل پر منحصر ہے۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو) میں زیر تربیت افسران سے ’پاکستان کی خارجہ پالیسی اور درپیش چیلنجز‘ کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے  شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمارے خطے اور عالمی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہندوتوا کے نظریے کی پیداوار ہے۔ 5 اگست 2019ء کو بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی ہدایات کے تحت ہم نے دنیا بھر میں کشمیر کاز کو ایک نئے جوش اور عزم کے ساتھ اٹھایا اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 55 سال کے وقفے کے بعد ایک سال میں تین مرتبہ کشمیر کی صورتحال زیر بحث آئی۔ پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ان کا جائز اور ناقابل تنسیخ حق خودارادیت ان کو حاصل نہیں ہو جاتا۔ 
 اسی طرح گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے کشمیری لیڈر یاسین ملک کی اہلیہ مشال ملک سے ملاقات کے دوران کہا کہ خود کو ایک لمحہ کے لیے بھی کشمیریوں سے جدا نہیں کر سکتے۔ نریندرمودی کی قیادت میں بھارتی فورسز کشمیر میں بدترین دہشت گردی کر رہی ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر خطے میں امن کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ہم پوری دنیا میں کشمیریوں کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ اس موقع پر مشعال ملک نے کہا کہ نریندر مودی کی حکومت نے کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا کر رکھ دیا ہے۔ کشمیریوں کو اقلیت میں بدلنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ بھارت طاقت کی بنیاد پر کشمیریوں کی تحر یک آزادی کو دبا نہیں سکتا۔ 
پاکستان کی وزارت خارجہ کو مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے اپنی کوششوں میں تیزی اور استحکام لانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے تمام سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کیا جانا چاہیے اور کشمیر سے متعلق ہر اہم دن پر تقاریب کا انعقاد کر کے اس مسئلے سے متعلق عالمی رائے عامہ کو ہموار کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح پاکستان مختلف بین الاقومی اور عالمی فورمز کے ذریعے بھارتی حکومت پر زور دے کہ وہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے خصوصی مینڈیٹ کے حامل نمائندوں کو غیرقانونی طورپر بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر جانے کی اجازت دے تاکہ وہ غیرجانبدارانہ طورپر حقائق جان سکیں اور مقبوضہ خطے کے عوام کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں درج استصواب رائے کا بنیادی حق بھی دیا جائے۔

مزیدخبریں