اپوزیشن کی بے سود توقعات،حکومت نے بل منظور کروالیا

Nov 18, 2021

عبدالستار چودھری
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی سیاسی فضا کافی گرم ہو چکی ہے اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے نعروں اور حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے تناظر میں ہونے والی اہم ملاقاتوں کے جواب میں عمران خان کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی حکومت نے اہم ترین قانون سازی کے لئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر کے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لئے انٹرنیٹ ووٹنگ کے استعمال سمیت انتخابی اصلاحات کا بل ایوان میں موجود ارکان کی اکثریت کی بنا پر منظور کروا لیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار عام انتخابات کو شفاف اور غیرجانبدار بنانے کے لئے ٹیکنالوجی کے استعمال کیلئے تاریخی قانون سازی کی ہے۔ اس بل کی منظوری کا بنیادی مقصد انتخابات کے بعد شکست سے دو چار ہونے والی سیاسی جماعتوں کے دھاندلی کے الزامات کا خاتمہ ہے ۔دوسری جانب اپوزیشن کی جانب سے مسلسل یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ چونکہ ناقص کارکردگی کے باعث پاکستان تحریک انصاف کو عوام ووٹ دینے کے لئے تیار نہیں اس لئے "ایول ویشس مشین" بل منظور کروایا گیا ہے۔ اپوزیشن کے الزامات اپنی جگہ لیکن انتخابی عمل کو شفافیت کی جانب لے جانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال انتہائی ضروری ہے۔ اگرچہ صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اس سے قبل 11 نومبر کو بھی طلب کیا گیا تھا لیکن اتحادی جماعتوں کی جانب سے اس بل پر مشاورت نہ کئے جانے کا اعتراض عائد کرتے ہوئے بل کی حمایت سے معذرت کر لی تھی جس کے بعد وزیر اعظم عمران خان اور دیگر حکومتی اکابرین نے اتحادیوں سے مسلسل ملاقاتیں کیں اور انہیں اس ناگزیر قانون سازی کے لئے رضامندکر کے بالآخر حکومت نے یہ کامیابی حاصل کر ہی لی۔ ادھر  قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہبازشریف کی زیر صدارت متحدہ اپوزیشن کے مشاورتی اجلاس میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے خلاف حکمت عملی طے کی گئی تھی اور متحدہ اپوزیشن نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ پوری قوت سے حکومت کی سیاہ قانون سازی کا راستہ روکا جائے گا لیکن ایوان میں اپوزیشن بھی ڈھیلی ڈھالی ہی دکھائی دے رہی تھی۔ وفاقی دارالحکومت کا سیاسی درجہ حرارت شاید اس وجہ سے بھی اچانک بلند ہوا تھا کیونکہ عدالت عظمی کی جانب سے سانحہ اے پی ایس پشاور کے متاثرین کی فریاد کی بنیاد پر لئے گئے ازخود نوٹس میں حال ہی میں وزیراعظم عمران خان کو مختصر نوٹس پر عدالت طلب کر لیا گیا تھا۔ جس کے بعد اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی صفوں میں اچانک خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے تھے کہ شاید وفاقی حکومت جو بقول اپوزیشن عسکری قیادت کے ساتھ پہلے ہی تنازعات کا شکار ہے، اب مزید مشکلات کا شکار ہو چکی ہے۔
 درحقیقت اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے  اس ایک جملے سے کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ کر لی تھیں جو گھوم پھر کر وہیں جا پہنچتا ہے  جہاںسے اپوزیشن کسی قسم کی توقعات کو خیر باد کہنے کا دم بھرتی ہے ،مگر میڈیا انہیں گھما پھرا کر پھر وہیں متوجہ کر لیتا ہے۔ گزشتہ دنوں سپیکر قومی اسمبلی کی زیرصدارت پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپوزیشن کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ عمران خان ان کے دوست نہیں بلکہ وزیراعظم ہیں۔ چونکہ مہنگائی کے نہ تھمنے والے طوفان کے باعث حکومت عوام کی نظر میں دن بدن غیرمقبول ہوتی جا رہی ہے اور ان حالات میں اپوزیشن کو ایک اچھا موقع میسر آیا کہ حکومت کے خلاف پوری قوت سے تحریک چلائی جائے اور عمران خان کو گھر بھیجا جائے، اسی دوران سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم کی شارٹ نوٹس پر طلبی نے اپوزیشن جماعتوں کی امیدوں کو مزید بڑھاوا دے دیا، حالانکہ اس واقعہ کو حکومت اور ریاستی ادارے اپنی اصول پسندی کا نام بھی دے لیں تو اسے کون رد کر سکے گا،جب سارے ذرائع و وسائل ہی ان کی دسترس میں ہوں۔ چنانچہ اس دوران حکومت کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے انتخابی اصلاحات بل پر تحفظات کے اظہار کے بعد تو گویا اپوزیشن کو حکومت کا خاتمہ چند دنوں کی بات لگنے کی۔ پھر یکایک حکومت نے اتحادیوں سے مشاورت کا عمل نتیجہ خیز ثابت بنا لیا اور انتخابی اصلاحات بل کی منظوری کے لئے مشترکہ اجلاس طلب کرکے ماحول کو ساز گار بنا لیا گیا۔
 اگرچہ ملک میں سیاسی ماحول کو گرمانے اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لئے پی ڈی ایم کی جانب سے حکومت مخالف احتجاجی تحریک کا آغاز کوئٹہ سے کر دیا گیا ہے اور باقی تین صوبائی دارالحکومتوں میں احتجاجی جلسوں کے بعد اسلام آباد کی جانب مارچ کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن متحدہ اپوزیشن کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ الیکشن ترمیمی ایکٹ کثرت رائے سے منظور ہو جانے کے بعد اپوزیشن کی امیدوں پر گویا اوس پڑ گئی ہے۔  پیپلزپارٹی کے پی ڈی ایم سے نکلنے کے بعد سے آج تک اپوزیشن جماعتیں عوام کے لئے کوئی مشترکہ، متفقہ اور واضح لائحہ عمل پیش نہیں کر سکیں اور الزام تراشی کی سیاست ویڈیو لیکس سے ہوتی ہوئی اب بیان حلفی تک آن پہنچی ہے، سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا ایم شمیم کی جانب سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف لگائے گئے الزامات نے سیاسی بے یقینی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ عوام کے روز بروز بڑھتے ہوئے مسائل اورحکومت کی بے حسی اپنی جگہ مگروفاقی وزراء کی مسلسل غیرسنجیدگی نے بے روزگاری اور کمر توڑ مہنگائی  میں جلتی کا کام کیا ہے۔ اس کے باوجود عوام کے مسائل کے بجائے اب بھی سابق جج صاحبان کے ''تماشوں'' نے  توجہ حاصل کر رکھی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے  ساڑھے تین سالہ دور حکومت کی کارکردگی کا خلاصہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان جس چیز کا نوٹس لیتے ہیں وہ عوام کی پہنچ سے دور ہو جاتی ہے، پٹرولیم مصنوعات، گھی، چینی اور دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتیں کئی کئی گناہ بڑھ چکی ہیں اور تشویشناک امر یہ ہے کہ اس نان سٹاپ مہنگائی کو بریک لگتی بھی دکھائی نہیں دیتی۔ ملکی تاریخ کی کمزور ترین حکومت کے مقابلے میں انتہائی مضبوط اپوزیشن جماعتوں کے مابین اعتماد کا فقدان اس قدر ہے کہ کوئی بھی اپوزیشن جماعت کسی دوسری جماعت کو اقتدار میں لانے کے لئے ''سہولت کار'' کا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ۔ موجودہ پارلیمنٹ کی مدت مکمل ہونے میں اب جتنی بھی مدت باقی ہے اس میں حکومت کی جانب سے عوام کو اگرچہ کسی بھی ریلیف کی توقع نہیں لیکن پھر بھی عوام سیاسی دھند چھٹنے کی منتظر ہے کہ شاید پردہ گرنے پر منظر تبدیل ہو جائے اور ان کے لئے کچھ اچھی خبریں برآمد ہوں۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

dairy 17 quami ufq
ندیم بسرا
’’تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے  ہم  بھی گئے   پے  تماشا   نہ  ہوا‘‘
مرز اسد اللہ خان غالب جب آج سے ایک سو باون برس قبل 1869 میںدنیا سے  رخصت ہورہے تھے  انہیں کیا علم تھا کہ ان کی شاعری میں بیان کئے گئے جذبات کئی برسوں بعد بھی کئی قسم کے واقعات اورکیفیات پر صادق آتے رہیں گے ۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قبل حکومتی اتحادیوں کی علیحدگی ،بعد ازاں خیر سگالی ملاقاتیںاور اکھٹے ہوجانے  کے واقعات  اس کی ایک واضح مثال ہیں۔جس نے اپوزیشن کے دعووں کو الٹ کر رکھ دیا اور تمام امیدیں ریت کی دیوار ثابت ہوئیں ۔اور فاتح ایک بار پھر پی ٹی آئی کی حکومت  ہوگئی ۔گزشتہ ایک ہفتے سے سیاسی ماحول میں کافی تنائو رہا  اور اتنی شدت سے اپوزیشن کے حلقوں سے آوازیں اٹھیں کہ مخالف آوازیںدب ہی گئیں ،جس پر وزیراعظم عمران خان نے اسی ہفتے کور کمیٹی کی میٹنگ میں اپنے لوگوں کو یہی کہا کہ ’’گھبرانا نہیں ‘‘۔ گویایہ الفاظ ایک بار پھر سچ ثابت ہوئے ۔پاکستان کی جمہوری تاریخ یہی کہتی ہے کہ حکومت کے اقتدار کے دو یاتین برسوں کے اندر کئی تحریکیں جنم لیتی ہیں جو حکومت کی کشتی کو بھنور میں کئی بار لے آتی ہے پھر نہ نظر آنے والی  تیز لہریںانہیں باہر بھی محفوظ کھینچ لیتی ہیں ۔سیاسی پنڈت جو کئی روز سے لندن سے کسی نئی ہوائیوں کے چلنے کا امکان ظاہر کررہے تھے کہ ملک کے طاقتور حلقے  پھر کسی ’’سیاسی مسیحا ‘‘کی تلاش میں سرکرداں ہیں۔میڈیا میں بھی یہی شوروغل تھا کہ موجودہ صورت حال میں پاکستان کا ایک طبقہ شاید ’’ان ہائوس ‘‘ تبدیلی کا خواہاں ہیں اور وہ لوگ ان’’ گمشدہ سیاسی‘‘ لوگوں کو انتظار کررہے ہیں جو ملک کا نظام دوبارہ اچھے طریقے سے چلائیں،یہ تاثر بھی دیا جارہا تھا کہ مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف اور پیپلز پارٹی کے روح رواں آصف علی زرداری میں اندرون خانہ کوئی نئی سیاسی ڈیل ہوگئی ہے اور آصف علی زرداری کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ ’’سیاسی تانے بانے ‘‘بننے کا وقت ہے ’’پنجاب ‘‘ سے تبدیلی کی ہوا کو تیز کیا جائے اور حکومتی اتحادی پاکستان مسلم لیگ ق کے چودھری پرویز الہی پر پنجاب کی پگ رکھ دی جائے اور انہیں چھ ماہ کے لئے وزیراعلی بنا دیا جائے ،اس کے لئے ضروری تھا کہ چودھری اس سے قبل حکومت کی بیٹھک کو چھوڑیں اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھ جائیں ،کیا اس تجویز پر چودھریوں نے حامی بھری تھی یا نہیں ؟۔یا اس قسم کی خواہش صرف ذاتی نوعیت کی تھی جس کو عملی جامہ نہ پہنایا گیا ۔اس خواہش کی تکمیل کے لئے کیا اتنا حوصلہ پاکستان مسلم لیگ ق کا تھا کہ پنجاب اسمبلی کی اسپیکر شپ چھوڑ دیں اور وزارتوں سے استعفی دے کر میدان میں اتر آئیں ،چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الہی سیاست کے بڑے کھلاڑی ہیں ان کا ملکی سیاست میں بڑا اہم کردار ہے ۔چودھری پرویز الہی ملکی سیاست کو اچھی طرح سمجھتے ہیں گو کہ ان کے سابق دور حکومت کو ملک کے طول وعرض میں لوگ آج بھی اچھی نگاہ اور عزت و احترام سے دیکھتے ہیں ۔پنجاب کے موجودہ سیٹ اپ میں اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہی ایک طاقتور سپیکر ہونے کے ساتھ معاملہ فہم سیاست دان بھی ہیں۔ میری ذاتی رائے میں چودھری پرویز الہی اس سیاسی خسارے کا کبھی بھی سودا نہیں کریں گے وہ ملکی سطح پر سیاست کرتے ہیں اور اس کے لئے وہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مسلسل روابط میں رہتے ہیں۔ انہوں نے مسلم لیگ ن کی ناراضگی کے باوجود کبھی مسلم لیگ ن سے سیاسی ٹاکرا نہیں کیا۔ اس کی وجہ وہ سیاست میں رواداری کے قائل ہیں یہی وجہ ہے کہ چوھدری شجاعت حسین کے بیمار ہونے پر حمزہ شہباز پھول لیکر ان کی عیادت کرنے چلے گئے اور ان کواپنے تایاجان  اور والد محترم کی نیک خواہشات کا پیغام بھی دیا ،اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ چودھریوں کے شریف خاندان سے ذاتی مراسم  ہیں وہ اس تعلقات میں سیاست کبھی نہیں لیکرآئے ۔اب تو مطلع صاف ہوگیا ہے ۔بلاشبہ ملکی سیاست میں کچھ عرصہ کیلئے ٹھہراؤ آجائے گا۔
اب پنجاب میں این اے 133 کے ضمنی الیکشن بھی ہونے جارہے ہیں جس میں یہ صاف  دکھائی دے رہا ہے کہ ن لیگ کا کوئی مد مقابل نہیں ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار جمشید اقبال چیمہ اس معرکے سے پہلے ہی آوٹ ہو گئے ہیں، کچھ لوگ یہ پراپیگنڈہ بھی کرتے  ہیں  کہ پی ٹی آئی کے امیدوار کو جان بوجھ کر ’’تائید کنندہ‘‘ ’’تجویز کنندہ ‘‘ ہی وہ ’’بھروسے مند ‘‘ شخص دیا جس کے بعد وہ خود نااہل  ہوگئے ۔دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ قومی اور صوبائی الیکشن پر امیدواروں کا کثیر سرمایہ صرف ہوتا ہے ۔اور کنٹونمنٹ بورڈ لاہور کے الیکشن کے نتائج کو دیکھتے ہوئے ایک خاص حلقے نے از خود ایسے’ ’تائید کنندہ‘‘ ’’تجویز کنندہ ‘‘کا انتخاب کیا  جو ان کی ترکیب پر پورا اترگیا ،خیرسیاست میں ایسی باتیں سیاسی حریفوں کے محض پراپیگنڈہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی ۔خیر اب تو سارا منظر واضح ہوگیا ہے رہ گئی انتخابات کی بات تو  اس الیکشن کوپی ٹی آئی کے ووٹر کیلئے امتحان ضرور کہا جائے گا کہ اس میں وہ اپنا کیا کردار ادا کر پاتے ہیں ؟کیا الیکشن سے قبل باقی ماندہ امیدوار بھی ’’خس وخاشاک ‘‘ کی طرح اڑ جائیں گے یا کسی سہارے یا کسی آواز پر آخر دم تک مقابلہ کریں گے جو بظاہرنظر نہیں آرہا ۔اب تو کہا جاسکتا ہے کہ اس الیکشن میں پنجاب حکومت کی کوئی چیز دائو پر نہیں لگی ۔اگر مسلم لیگ ن الیکشن جیت گئی تو پنجاب سے یہی آواز اٹھے گی کہ ہمارا کوئی نمائندہ نہیں تھا اس لئے یہ ضمنی الیکشن ہمارے لئے بے معنی تھا ۔

مزیدخبریں