سورہ بقرہ میں حضرت عزیر علیہ السلام اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوروحانی تجربات کا تذکرہ کیاگیا ہے ، جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے زندگی اورموت کے بارے میں اپنی قدرت کے سربستہ اسرار سے انھیں آگاہ فرمایا اوریقین ومعرفت کی نئی منازل سے آشنا کیا۔ ساتویں صدی قیل مسیح میں بابل (مملکت ایران وعراق)میںبخت نصرکا ظہورہوا اس نے اپنی جابرانہ اور قاہرانہ طاقت سے قرب وجوار کی تمام مملکتوں کو مسخر کرلیا اور تھوڑے عرصے میں فلسطین پر تین حملے کرکے بنی اسرائیل کا شیرازہ بکھیر کررکھ دیابڑی تعداد میںانسان تہہ تیغ کردیے گئے۔ ایسے میں ایک برگزیدہ انسان (غالب روایت کیمطابق) حضرت عزیر علیہ السلام سفر پہ نکلے اورایک تباہ شدہ ، خستہ حال بستی کے پاس سے گزرے ، پراگندہ حال لاشیں بکھیری ہوئی تھیں، جن کی ہڈیاں خستہ اورگوشت بکھرچکا تھا، انکے ذہن میں یہ سوال ابھرا کہ اللہ ان اجسام کو قیامت میں دوبارہ کیسے زندہ کریگا؟ اللہ کے نبی کا سوال شک کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ وہ اللہ کی معرفت کا جو یاں ہوتا ہے ۔ اللہ رب العزت نے ان پر موت طاری کردی اوروہ سوسال کے بعد دوبارہ زندہ کیے گئے ، تو ان سے سوال ہوا کہ آپ یہاں کتنے عرصے تک دراز رہے، انھیں یہی محسوس ہوا کہ سوچتے سوچتے انکی آنکھ لگ گئی اورتقریبا ایک دن یا اسکا اکثر حصہ انھوں نے نیندکے عالم میں گزاردیا، انھوںنے یہی بیان کیا، تو انھیں مطلع کیا گیا کہ آپ تو یہاں پر پورے ایک سوسال تک دراز رہے اوراسکی دلیل اپنے سامنے ملاحظہ کیجئے کہ آپ کا سامان خوردونوش اسی طرح تروتازہ ہے گویا اس پر ابھی ایک مکمل دن نہیں گزرا، جبکہ آپ کا گدھا مرچکا ہے، اوربوسیدہ ہوکر گل سڑھ گیا ہے اوردیکھواب اسے ہم تمہارے سامنے کس طرح دوبارہ زندہ کرتے ہیں،کس طرح اسکی بوسیدہ ہڈیاں توانا ہو جائینگی ، آپس جڑ جائینگے اوران پر گوشت کا غلاف چڑھ جائیگا، اللہ کی قدرت کا یہ عظیم الشان مظاہرہ دیکھا تو انکی زبان سے بے ساختہ نکلا میں (حق القین کے مقام پر پہنچ کر)اچھی طرح جان گیا کہ بے شک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔حضرت ابراہیم ؑنے اللہ رب العزت کی بارگاہ میںسوال کیا کہ اللہ مجھے یہ مشاہدہ کروادے کہ تیری قدرتوں والی ذات مردوں کو کیسے زندہ کردیگی، ان سے سوال کیاگیا کیا تمہیں اس بات پر ایمان نہیں ہے آپ نے عر ض کی، کیوں نہیں۔ لیکن میں تو اپنے دل کے اطمینان کیلئے یہ سوال کررہا ہوں۔ آپکو حکم دیاگیا کہ چار پرندوں کو خود سے مانوس کرلیں ، پھر انھیں ذبح کریں انکے گوشت کو باہم ملادیں اورارگرد کی پہاڑیوں پر پھینک دیں اورپھر انھیں آواز دیجئے ، وہ دوڑتے ہوئے آپکے پاس آجائینگے ۔مانوس کرنے کا حکم اس لیے تھا کہ نہ سمجھا جائے کہ کوئی اور پرندے بھی ہوسکتے ہیں، اسی طرح ہوا، جب آپ نے انھیں آواز دی تو اللہ کی قدرت سے انکے ریز ے دوبارہ یکجا ہوگئے ان میں زندگی کی لہر دوڑ گئی اوروہ آپکی خدمت میں حاضر ہوگئے۔