اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ آف پاکستان نے لانگ مارچ کو ریگولیٹ کرنے سے متعلق درخواست کو نمٹا دیا۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ لانگ مارچ سیاسی مسئلہ ہے جس کا سیاسی حل ہو سکتا ہے، حکومت جہاں چاہے لانگ مارچ کو روک سکتی ہے۔ ہم سیاسی معاملات میں تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا لانگ مارچ روکنے کیلئے حکومت کے پاس وسیع اختیارات ہیں، کیا ہم ڈی سی اسلام آباد کا کام کریں۔ سپریم کورٹ میں عمران خان کے لانگ مارچ کے خلاف سینیٹر کامران مرتضیٰ کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی۔ سماعت کے آغاز پر درخواست گزار کامران مرتضیٰ نے موقف اختیار کیا کہ دو ہفتے سے عمران خان کا لانگ مارچ شروع ہے، فواد چوہدری کے مطابق جمعہ یا ہفتے کو لانگ مارچ اسلام آباد پہنچے گا، جس سے معمولات زندگی متاثر ہو سکتے ہیں، لانگ مارچ پی ٹی آئی کا حق ضرور ہے لیکن عام آدمی کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہئے، جس پر جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا حکومت نے احتجاج کو ریگولیٹ کرنے کا کوئی طریقہ کار بنایا ہے؟۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ انتظامیہ اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ لانگ مارچ کنٹرول نہیں کر سکتی؟۔ یہ ایگزیکٹو کا معاملہ ہے ان سے ہی رجوع کریں، صرف غیر معمولی حالات میں ہی عدلیہ مداخلت کر سکتی ہے، جب انتظامیہ کے پاس ایسی صورتحال کنٹرول کرنے کے وسیع اختیارات ہیں تو عدالت مداخلت کیوں کرے؟۔ جس پر وکیل کامران مر تضی نے کہا بات اب بہت آگے جا چکی ہے، پی ٹی آئی کے لانگ مارچ پر فائرنگ سے ایک شخص کی جان گئی، کئی لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا پی ٹی آئی کا لانگ مارچ تو کافی دنوں سے چل رہا ہے، کیا آپ نے انتظامیہ سے رجوع کیا ہے؟۔ لانگ مارچ کے معاملے میں جلدی کیا ہے اور انتظامیہ کی غفلت کیا ہے؟۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ نے درخواست میں ماضی کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا ہے، لانگ مارچ سیاسی مسئلہ ہے جس کا سیاسی حل ہو سکتا ہے، عدالت کی جانب سے اس قسم کے مسائل میں مداخلت سے عدالت کے لیے عجیب صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ نے اپنی درخواست میں ایک آڈیو کا ذکر کیا ہے، اس آڈیو میں ہتھیار لانے کا ذکر ہے، آڈیو سچ ہے یا غلط لیکن اس سے امن و امان کی صورتحال خراب ہو سکتی ہے، کیا 25 مئی کے لانگ مارچ کے لوگوں کے پاس اسلحہ تھا؟ احتجاج کا حق لامحدود نہیں، آئینی حدود سے مشروط ہے۔ کامران مرتضی نے کہا ابھی لانگ مارچ پنجاب کی حدود میں ہے جہاں وفاقی حکومت کا اختیار نہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کہہ رہے ہیں لانگ مارچ ابھی پنجاب کی حدود میں ہے، کیا آپ نے پنجاب حکومت سے رابطہ کیا ہے؟۔ اگر صوبے اور وفاق کا رابطہ منقطع ہو جائے تو کیا عدالت مداخلت کر سکتی ہے؟۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ ایک سینیٹر ہیں پارلیمنٹ کو مضبوط کریں، جس پر کامران مرتضی نے کہا میں ذاتی حیثیت میں عدالت آیا ہوں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کیسے مان لیں کہ آپ حکومت کا حصہ بھی ہیں اور ذاتی حیثیت میں آئے ہیں۔ کامران مرتضی نے کہا بظاہر لگتا ہے کہ انتظامیہ صورتحال کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا بظاہر لانگ مارچ کے معاملے میں عدالت کی مداخلت قبل از وقت ہو گی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ چاہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ ڈپٹی کمشنر کا کردار ادا کرے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا توہین عدالت کا معاملہ لارجر بینچ میں زیر التوا ہے جہاں فریقین نے یقین دہانی کی خلاف ورزی پر جواب دینا ہے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ بنچ الگ سے لانگ مارچ کے معاملے میں مداخلت کرے؟۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا لانگ مارچ کا معاملہ تو اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی زیر التوا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا پی ٹی آئی کے 25 مئی کے جلسے کے لیے ایچ نائن گرائونڈ کے لیے درخواست دی گئی تھی، انتظامیہ نے ایچ نائن گرائونڈ دینے سے انکار کیا تو سپریم کورٹ نے مداخلت کی، ایچ نائن کا گرائونڈ مختص ہونے کے باوجود ہجوم ڈی چوک چلا آیا، کیا آپ اس بات سے خائف ہیں کہ 25 مئی والا واقعہ دوبارہ ہو سکتا ہے؟۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو ایگزیکٹو کے پاس وسیع اختیارات موجود ہیں، کیا عدلیہ کی مداخلت سے انتظامیہ اور پارلیمنٹ کمزور نہیں ہو گی؟۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا آپ کے مطابق تو ایگزیکٹو کے اختیارات تو 27 کلومیٹر تک محدود ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا انتظامیہ کو متحرک کریں کہ وہ اپنا کردار ادا کریں، آئے روز اسلام آباد میں پارلیمنٹ سمیت کئی جگہوں پر احتجاج ہوتے ہیں، کیا کبھی باقی احتجاجوں کے خلاف آپ عدالتوں میں گئے ہیں؟ ایک مخصوص جماعت کے لانگ مارچ میں ہی عدالت کی مداخلت کیوں درکار ہے؟۔ کامران مرتضی نے کہا لانگ مارچ کی وجہ سے ایک پورا صوبہ مفلوج رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ مفروضے کی بنیاد پر ہمارے پاس آئے ہیں، کیا انتظامیہ نے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے لیے جگہ کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا ہے؟۔ جس کے بعد عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو روسٹرم پر بلا لیا۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو روات میں جلسے کا کہا تھا، انتظامیہ نے پی ٹی آئی سے بیان حلفی مانگا جو اب تک پر نہیں ہوا، اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی یہ معاملہ چل رہا ہے، آدھا گھنٹہ دیں تو انتظامیہ سے معلومات لے لیتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا اگر واضح طور پر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہو تو عدلیہ مداخلت کرے گی۔ کامران مرتضی نے کہا درخواست میں ماضی کی آئینی خلاف ورزیوں کا حوالہ بھی موجود ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہو سکتا ہے خلاف ورزیوں پر دوسرے فریق کا اپنا موقف ہو، سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی پر عدالت کے لیے معاملہ پیچیدہ ہو جاتا ہے، عدالتی حکم عملدرآمد کے لیے ہوتے ہیں۔ جس کے بعد عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایات لینے کیلئے آدھے گھنٹے کیلئے سماعت ملتوی کردی۔ وقفہ کے بعد دوبارہ سماعت ہوئی تو ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے پیش ہو کر عدالت کو بتا یا کہ انتظامیہ کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کے لیے پی ٹی آئی کا خط موصول ہوا تھا۔ انتظامیہ نے پی ٹی آئی سے تاریخ، وقت اور جگہ کے متعلق پوچھا تھا جس کا جواب نہیں دیا گیا، جس کے بعد وزیر آباد واقعہ بھی ہوا۔ وزیرآباد واقعے سے پہلے پی ٹی آئی نے خون ریزی کی باتیں کیں، وزیرآباد واقعے کے بعد انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو اسلام آباد داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، جس کے خلاف پی ٹی آئی اور سول سوسائٹی کے کچھ لوگ اسلام آباد ہائیکورٹ چلے گئے۔ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپکی درخواست غیر موثر ہو چکی ہے۔ کامران مرتضی نے کہا جو جے یو آئی کے ساتھ رویہ تھا وہی رویہ چاہتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ریاست بے یارومددگار ہے کچھ نہیں کر سکتی۔ ریاست طاقت ور بااختیار ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا 20 ہزار لوگ آجائیں تو عملی طور پر روکنا مشکل ہو جاتا ہے، کسی بھی خون ریزی کو روکنا چاہتے ہیں، ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے عدالت کی مداخلت چاہتے ہیں، وفاق نے 5 نومبر کو بھی صوبہ پنجاب کو آرٹیکل 149 کے تحت خط لکھا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا حکومت احتجاج کو کسی بھی جگہ روک سکتی ہے۔ سمجھ سکتے ہیں کہ آپ موجودہ صورتحال سے پریشان ہیں، آج باجوڑ دھماکہ میں ہمارے لوگ شہید ہوئے، ایسی صورتحال سے ہر شہری متاثر ہوتا ہے، وفاقی حکومت نے 149 کا مراسلہ بھی لکھا ہے، اس مراسلے کو بھی درخواست کا حصہ بنا لیں۔ آرٹیکل 149 کے تحت وفاق کا صوبوں کو خط بہت سنجیدہ معاملہ ہوتا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کیا وفاق کو نہیں معلوم کہ اپنی ذمہ داری کیسے پوری کرنی ہے؟۔ سپریم کورٹ انتظامی معاملات میں کیا کر سکتی ہے۔ جس کے بعد عدالت نے اپنے حکم میں تحریر کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کی جانب سے جو صورتحال بتائی گئی ہے اس کے بعد کیس غیر موثر ہو چکا ہے، اس لئے اس کیس کو نمٹا رہے ہیں۔
لانگ مارچ سیاسی مسئلہ،حکومت جہاں چاہے روک سکتی ہے: سپریم کورٹ
Nov 18, 2022