ذیشان کلیم معصومی
اللہ پاک نے انسان کے لئے بے شمار نعمتیں پیدا فرمائی ہیں اگر ہم سوچیں تو ہمارے جسم کا ایک ایک بال اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہے تو کبھی ادا نہیں کر سکتا۔ اللہ خود فرماتا ہے کہ اگر تم میری نعمتوں کا شمار کرو تو ان کا شمار نہیں کر سکتے۔ انسان وہ ہے جو اپنے مالک کی دی ہوئی نعمتیں استعمال کر کے اس کا شکر بھی کرے۔ اللہ پاک ایسے بندوں پر راضی ہو کر ان کو اور زیادہ عطا فرماتا ہے اور اس کے برعکس جو لوگ اس کا دیا ہوا بھی کھاتے ہیں اور اس کا شکر ادا نہیں کرتے ،ایسے لوگوں کو اللہ کے عذاب سے خبردار کیا گیا ہے۔
انسان اگر اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پران کی بے قدری کرتا ہے تو اس نافرمان کو اللہ ڈھیل بھی دیتا ہے ۔ انسان کو مختلف اشاروں سے سمجھایا جاتاہے کہ یہ کفران نعمت مت کرے اور احسان مان کر اللہ کا شکر ادا کرنے والا بن جائے ۔جبکہ نافرمان کی نافرمانی کی حد نہیں رہتی اور جب یہ نوبت پہنچ جائے تو بلائوں کا دروازہ کھل جاتا ہے اگر اس پر بھی انسان نہ سمجھے تواسے نیست و نابود کر دیا جاتا ہے اور اس کو آخرت کی نعمت یعنی مغفرت اجروثواب سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔
اللہ پاک کی نعمتوں کی قدر ہم زبان سے الحمد اللہ کہہ کر کرتے ہیںاس کے ساتھ ساتھ اعضاء سے بھی ان نعمتوں کا شکر اس کی عبادت میںزیادہ مشغول ہوکر کرسکتے ہیں۔ اور جب کوئی اللہ کا بندہ اللہ کی نعمتوں پر الحمداللہ کہتا ہے اس کا شکر ادا کرتا ہے تواس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں وہ جس دروازے سے چاہے اند داخل ہو جائے اور ایک مرتبہ الحمد اللہ کہنے سے تیس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اس کی برکت زمین و آسمان کے درمیانی خلا کو پر کر دیتی ہے جب دوسری بار الحمد اللہ کہتا ہے تو اس کے انوار ساتویں طبق آسمان سے لے کر ساتویں طبق زمین تک بھر جاتے ہیں۔ تیسری طرف الحمداللہ کہنے سے اللہ خود اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے کسی نعمت کا شکر صرف زبان سے الحمداللہ کہنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ زبان سے الحمداللہ کہنے کے بعد دل میں اس کا احساس پیدا کر کے اپنے عمل سے یعنی اس نعمت کو بندگان خدا کے کام میں لایا جانا شکرانہ نعمت ہے۔
انسان بڑا نا شکرا ہے اسکی حرص اس کو نعمت کی قدر نہیں کرنے دیتی جو تقدیر میں نہیں اس کو نعمت سمجھتا ہے اور اس کے لئے تدبیر کرتا پھرتا ہے ایسی تدابیر کا انجام ہلاکت ہے نعمتیں ملنے سے قبل اور بعد شغل مع اللہ میں کمی نہ ہو قلب کی وہی حالت رہے جو پہلے تھی اور یہ بھی ہو سکتا ہے اگر اللہ کو چھوڑ کر نعمتوں میں مشغول رہے اور اس کو بھول جائے تو وہ نعمت چھین لی جاتی ہے اسی طرح حسد اور ناشکری بھی نعمتوں اور نیکیوں کو برباد کر دینے والی برائی ہے۔ جب بھی اللہ کوئی خدمت اپنے بندوں کو عطا فرمائے تو اس کا شکر انہ یہ ہے کہ زبان سے الحمدا للہ کہے اور خود ان کیلئے وسیلہ بن کر حاجت برآری کیا کرے ۔ انسان کو شریعت کی پابندی کرنی چاہیے اور ہر لمحہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا ذکر کرتے رہنا چاہیے، اس کی مخلوق کی خدمت کو اپنا شعار بنانا چاہیے ۔ اس سے دنیا میں تو عزت و کامیابی عطا ہو گی مگر آخرت میں بھی اس کا اجر وثواب ملے گا۔