تھوڑی مایوسی بچا کر رکھیں 

Nov 18, 2022

عبداللہ طارق سہیل


خان صاحب نے یہ کیا فرما دیا کہ میں آرمی چیف کی تقرری والے معاملے سے پیچھے ہٹ گیا ہوں
محبت ترک کی میں نے 
گریباں سی لیا میں نے 
لیکن نہیں، گریبان ابھی نہیں سیا، آج کل میں لانگ مارچ کے حتمی مرحلے یعنی پنڈی، اسلام آباد میں داخلے کی تاریخ دینے والے ہیں چنانچہ خان صاحب کے مدّاحوں کو فی الحال اور فوری طور پر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، مطلب یہ کہ زیادہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ تھوڑی سی مایوسی بچا کر رکھ لینی چاہیے، اگلے مرحلے پر ضرورت پڑ سکتی ہے۔ 
لانگ مارچ اخباری رپورٹروں کے مطابق جاری ہے لیکن صورت اس کی محبوب کی روایتی کمر والی ہے کہ ”کہاں ہے، کس طرف کو ہے کدھر کو ہے۔ ایک وڈیو کلپ میں پی ٹی آئی کے سابق پوسٹر بوائے عمر اسد کہہ رہے تھے کہ یار جہاں بھی جاﺅ، کرسیاں خالی ہی نظر آتی ہیں۔ ممکن ہے عمر صاحب کو نظر کا دھوکہ ہوا ہو۔ اس لئے کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پر تو ہر طرف ہرا ہی ہرا یعنی جدھر نگاہ ڈالو، کرسیاں بھری ہی نظر آتی ہیں۔ ایک معاصر کی سہ ورقی رپورٹ ہے کہ مارچ کے شرکا کی دن بدن بلکہ لمحہ بہ لمحہ گرتی ہوئی تعداد سے پارٹی قائدین مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں۔ ممکن ہے یہ معاصر پورے کا پورا لفافہ ہو۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ صرف اخبار نویس، کالم نگار اور تجزیہ کار ہی لفافے نہیں ہوتے، بعض اوقات پورے کا پورا میڈیا گروپ ہی ”لفافہ“ نکلتا ہے اور آج کل تو سائنسی عجوبہ جات کا دور ہے، لفافہ ”کیمرے“ بھی دریافت ہو گئے ہیں۔ 
__________________
خان صاحب جس معاملے سے پیچھے ہٹے ہیں وہ یہ تھا کہ ”آرمی چیف کی تقرری میں کروں گا۔ بعدازاں اس معاملے میں خان صاحب کے صدر مملکت نے یہ کہہ کر ترمیم کر دی کہ مشاورتی عمل میں خان صاحب کو بھی شریک کیا جائے۔ کچھ مزید بعد میں انہوں نے یہ کہہ کر اپنی ترمیم واپس لے لی کہ آئین میں آرمی چیف کی تقرری پر مشورے کی گنجائش ہی نہیں۔ 
آج کل چیف صاحب جہاں جہاں جاتے ہیں، صدر صاحب ان کے پیچھے پیچھے پہنچ جاتے ہیں
تو ڈال ڈال، میں پات پات 
تِرا پیچھا کبھی نہ چھوڑوں 
وہ لاہور آئے تو یہ بھی لاہور آ گئے، وہ کراچی گئے تو یہ بھی کراچی پہنچ گئے۔ مقصد اس پیچھے کا یہ ہے کہ خان صاحب کے لیے معافی تلافی کا بندوبست کچھ نہ کچھ ہو جائے۔ پہلے مقصد یہ تھا کہ صلح صفائی کے بعد خان صاحب کو ان کا کھویا ہوا راج پاٹ واپس دلایا جائے، اب محض یہ تمنا رہ گئی ہے کہ بس مزید گھیراتنگ نہ کیا جائے، ان کے ساتھ جو ہو چکی، وہی کافی ہے۔ ادھر سے جواب آتا ہے کہ میں تو غیر سیاسی ہوں، میرا ان معاملات سے کیا لینا دینا۔ یعنی کوئی صورت نظر نہیں آتی، کوئی امید بر نہیں آتی لیکن صدر صاحب اور خان صاحب ڈٹے ہوئے ہیں کہ امیّد پر دنیا قائم ہے۔ 
__________________
گھڑی کی چوری وغیرہ والے ماجرے نے مشکل گھڑی کو اور بھی مشکل بنا دیا ہے اور خان صاحب نے انتہائے یاس میں فرما دیا ہے کہ پاکستان میں انصاف ملتا نظر نہیں آتا، لندن کی عدالت جا کر کیس کروں گا۔ 
للہ، خان صاحب ایسا مت کیجئے گا۔ لندن کی عدالت سے سچ مچ انصاف مل گیا تو پھر کہاں جائیں گے! لندن کی عدالتیں کچھ ایسی ہی شہرت رکھتی ہیں۔ 
__________________
پاکستان کے آبادیاتی سروے میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کی اوسط عمر کم ہوتی ہے اور یہ 65.4 سال سے کم ہو کر محض 65 سال رہ گئی ہے۔ 
یاد ہو گا، محض دو تین عشرے پہلے پاکستان میں اوسط عمر بھارت اور بنگلہ دیش سے زیادہ تھی۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ اب یہ دونوں ملک اوسط عمر کے معاملے میں پاکستان سے خاصے بلکہ بہت بہتر ہیں....بنگلہ دیشیوں کی اوسط عمر 72.87 یعنی لگ بھگ 73 سال اور بھارت میں 70 سال ہے۔ 
ظاہر ہے کہ معاشی حالات ابتر ہوئے، جرائم اور حادثات میں اضافہ ہوا، بیماریوں کی شرح میں اضافہ اور شفایابی کی سہولیات، کم از کم غریب اور لوئر مڈل کلاس کے لیے نہ ہونے کے برابر ہوئیں۔ ان سہولتوں میں پرویز مشرف نے نمایاں کمی کی اور اللہ بھلا کرے عمران خان کا کہ انہوں نے ان سہولیات کا صفایا ہی کر دیا۔ ان کے دور میں سرکاری ہسپتالوں سے عام بیماریوں کے مفت علاج کی سہولت واپس لے لی گئی، سرکاری ہسپتالوں کی حالت کو حالت زار میں بدلا گیا اور نجی ہسپتالوں کے لیے رقم اور سہولیات کے منہ کھول دئیے گئے۔ اس سے پہلے وہ اپنے زیر حکومت پختونخواہ میں سرکاری علاج کا انتم سنسکار کر چکے تھے اور وہاں کے مریضوں کا رخ پنجاب کی طرف ہو گیا تھا۔ اب پنجاب میں بھی وہی عالم ہے۔ 
پاکستان میں صرف بیماریاں ہی نہیں، مایوسی بھی بڑھ رہی ہے اور لاقانونیت کا قانون نافذ ہے۔ ضیاءالحق کی حادثاتی وفات کے بعد ملک کچھ نہ کچھ ٹھیک ڈگر پر چل پڑا تھا کہ پرویز مشرف کا دور تباہ کاری شروع ہو گیا۔ ہر شعبے میں تابکاری کرنے کے بعد یہ نحوست کا دور ختم ہوا اور ٹوٹی پھوٹی سلطانی جمہور کا دور آیا تو عمران خان نمودار ہو گئے۔ پھر تو وہ ہوا کہ رہے نام اللہ کا۔ 
__________________
اب جو تباہی آئی ہے، اس کی ذمہ دار بھلے موجودہ حکومت نہ ہو لیکن اس تباہی کا ازالہ نہ کر سکنے کی ذمہ داری بہرحال اسی کی ہے۔ چند دن پہلے ایک سروے میں بتایا گیا کہ موجودہ ظالمانہ مہنگائی کا ذمہ دار 51 فیصد عوام موجودہ حکومت کو سمجھتے ہیں۔ 
موجودہ حکومت برسراقتدار آتے ہی عمران خان کی مہمات کی زد میں آ گئی تھی اور یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ ان مہمات کو مختلف اداروں میں براجمان سہولت کاروں کی فعال امداد بھی حاصل تھی لیکن اس کے باوجود جو کچھ وہ کر سکتی تھی، اس نے نہیں کیا۔ پہلی غلطی تو مفتاح اسماعیل کو لا کر کی گئی۔ وہ معاشیات کے بہت بڑے عالم اور فاضل ہوں گے لیکن مسئلے حل کرنے کی صلاحیت سے فارغ تھے۔ انہوں نے بوھتے پانی دا اکو ای حل نواب ٹیوب ویل نواب ٹیوب والے فارمولے کا استعمال کیا۔ یعنی رقم کی کمی کو غریب اور لوئر مڈل کلاس پر مزید ٹیکس لگاتے چلے جانے کے علاوہ کوئی تدبیر ان کے پاس نہیں تھی۔ چنانچہ 51 فیصد عوام نے غصہ اس حکومت پر نکالا ہے تو ٹھیک ہی نکالا ہے۔ یہ حکومت تو عالمی منڈی میں گھی 50 فیصد سستا ہونے کے باوجود گھی کے نرخ کم کرنے پر تیار نہیں۔ اور کیا توقع کی جائے۔ 
__________________

مزیدخبریں