چین کا بے تاج بادشاہ (کنفیوشیس )   ....(1)

Nov 18, 2022


چینی تاریخ کے منظر نامے پر اڑھائی ہزار سال سے زائد عرصے سے چھائے رہنے والے گو تم بدھ اور سقراط کے ہم عصر فلا سفر عام طور پر کنفوشیس CONFUCIUSکے نام سے جانے جاتے ہیںمگر عرف تمام میں چینی عوام انہیںکھونگزی یا ماسٹر کھونگ کے نام سے بھی بھی پکارتے رہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے اس عظیم مدبر ،مفکر ،معلم ،مدیر ۔ مُصلح اور اخلاقی ، تہذیبی ، ثقافتی اور مثالی سیاسی اقدار کے علم بردار کو چینی بڑے احترام اور عقیدت کی نظر سے دیکھتے ہیں بلکہ بقول چینی صدر شی چن پھنگXIJINPING وہ چین کی پہچان ہیں اور انہی کی وجہ سے لوگ چین کو جانتے ہیں ۔اب ہم ان کے بارے میں چیدہ چیدہ سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے مثلاًجس زمانے میں وہ پیدا ہوئے اس وقت چین کی عمومی عمرانی ، تہذیبی اور سیاسی صورتحال کیا تھی؟ان کی ابتدائی زندگی اور تعلیم وتربیت کن قواعد کے تحت پائیہ تکمیل کو پہنچی ؟کیا وہ کسی مذہب ، مسلک یا سیاسی نظریے کے موجد تھے ؟ایک مفکر اور معلم کی حیثیت سے انہوں نے کس قسم کی تعلیمات کو اپنایا اور پر چار کیا اور وہ تعلیمات اپنے زمانے سے کس حد تک مطابقت رکھتی تھیں نیز عوامی جمہوریہ چین کا موجودہ نظام کس حد تک ان کی تعلیمات سے استفادہ کر رہا ہے اور کیا ہمارے لئے بھی اس سے خوشہ چینی کے کچھ امکانات ہیں ؟
کنفوشیس آج سے تقریباًدو ہزار پانچ سو چھیاسٹھ (2566) سال قبل چینی علاقے چھیوفو(QUFU ) جو آج کل صوبہ شندونگ میں واقع ہے میں 551 ق م میں پیدا ہوا ۔ یہ علاقہ اس وقت مشرقی ذو خاندان ZHOU DYNASTY کے زیر حکمرانی لُو ۔LU نامی ریاست کا حصہ تھا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سیاسی طوائف الملوکی اور سماجی و معاشرتی صورتِ حال مخدوش اور بڑی حد تک ابتری کا شکار تھی ۔ انفرادی اور حکمرانی کی اعلیٰ قدریں رویہ زوال تھیں ۔ ظلم و جبر ، عدم مساوات اور جسکی لاٹھی اسکی بھینس کا سماں تھا ۔ جس چھوٹی سی ریاست کا کنفوشیس باشندہ تھا ۔اس کے اردگرد کی نسبتاًچھ سات بڑی ریاستوں نے اپنے سے کم رقبے اور کمزور دفاع والی ریاستوں کو زبردستی اپنے اندر ضم کر لیا تھا اور وہ آپس میں بھی مسلسل جنگ و جدل میں مصروف رہتی تھیں تاکہ دوسروں کو نیچا دکھا سکیں ۔تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ اس وقت تک چینیوں نے تحریر کا اعلیٰ اور عمدہ نظام وضع کر لیا ہوا تھا ۔اگرچہ ابھی تک کاغذ کی ایجاد باقی تھی لہذا وہ بانس کے چھلکوں اور لکڑی کی باریک تختیوں پر اپنی دستاویز لکھ لیا کرتے تھے۔
کنفوشیس کے والد کونگ ، جنہیں شولیانگ بھی کہا جاتا ہے ریاست لو LU کی فوج کے ایک آفیسر تھے مگر شومئی قسمت سے ابھی کنفوشیس کی عمر تین سال ہی تھی کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور ان کی پرورش ان کی والدہ نے انتہائی غربت کے عالم میں کی ۔اس نے 19 سال کی عمر میں Qiquan چھی چھوان نامی خاتون نے شادی کی ۔اس کا تعلق بظاہر درمیانے درجے کے طبقے سے تھا لیکن اس نے کسی کام یا محنت میں عارنہ سمجھی اور بطور گڈریا محنت مزدوری کرنے کے علاوہ کتب خانے میں بطور کلرک بھی کام کیا ۔جب تیس سال کی عمر میں اسکی والدہ فوت ہیں تو اس نے حسبِ چینی روایت تین سال تک اس کا ماتم کیا ۔
خیر اس شخص نے چینی اخلاقیات اور سماجی و عمرانی اقدار کی اڑھائی ہزار سال تک آبیاری کی اس کی زندگی کی تقویم میں وہ شب و زور بھی آنے والے تھے جب اسے فطرت امر کرنے کے لئے تیار کر رہی تھی ۔ کنفو شیس کے معاصر تعلیمی نصاب میں عام طور پر مصوری ، خطاطی ، تاریخ ، ادب وفنون ، موسیقی ، تہذیبی و ثقافتی روایات کی پاسداری جیسے مضامین شامل تھے ۔ اس نے ان تمام مضامین کو ازبر کیا حٰتکہ تغیر وتبدل نامی کتاب THE BOOK OR CHANGE تو اس حد تک بار بار یاد کی کہ باوجود بلکہ وہ بانس کے چھلکوں پر لکھ کر مضبوط ترین چمڑے سے جلد بند کی گئی تھی پھر بھی اس کا چمڑا تین بار پھٹ گیا ۔ کنفوشیس نے جب عملی زندگی کا آغاز کیا تو ریاست LU پر جو ڈیوک حکمران تھا اسکے ماتحت اشرافیہ کے تین خاندان تھے جن کے سربراہ VISCOUNT شمار ہوئے تھے اور لُو LU کی نوکر شاہی میں وراثت کے اختیارات کے حامل تھے اور
 انہیں عوام پر وزیر جیسے حقوق حاصل ہوتے جبکہ لنگ حضرات وزیر تعمیرات تھے اور شُو خاندان وزیر جنگ کا فریضہ انجام دیتا تھا جب ان مختلف سماجی طبقات میں باہمی منافرت عروج پر تھی تو کنفوشیس اپنی انسانیت دوست تعلیمات سے اپنی حیثیت کافی حد تک مستحکم کر چُکا تھا لہٰذا انہیں 501 ق م قبل مسیح میں نسبتاًایک چھوٹے شہر/ صوبے کا گورنر بنا دیا گیا تا انکہ وہ ملکی سطح پر وزیر انصاف کے عہدے پر متعین بھی رہا ۔ مگر وہ اپنی تعلیمی سر گرمیوں کا تسلسل بر قرار رکھنے اور اپنی تعلیمات کے پر چار پر دیگر ریاستوں کے عوام کو اپنا پیرو کار اور ہمنوا بنانے کی کوششوں میںبھی مصروف نظر آتا ہے کیونکہ وہ اکثر ان ریاستوں کا سفر کرتا رہتا تھا ۔ اب ہمارے بنیادی سوال یعنی اس کی تعلیمات اور انکی معاصر معاشرتی و عمرانی ماحول سے مطابقت کے متعلق ہے جو یقیناًہمارے موقر قارئین کی زیادہ سے زیادہ دلچسپی کا باعث ہو سکتا ہے ۔اس کی تعلیمات کا تذکرہ کرنے سے قبل ضروری ہے کہ کہ ابتدامیں ہم نے جو سوال اٹھایا تھا کہ کیاوہ کسی مذہب ، مسلک فلسفہ یا نظریہ حیات کا موجد تھا یا نہیں ؟۔تو اس سلسلے میں چند معروضات اور بعد ازاں اسکی تعلیمات کا ذکر !اس کے اپنے آبائی وطن چین میں یہ سوال کئی بار بحث و مباحثے کا باعث بنا کہ آیا ۔ کنفوشس کی تعلیمات یا کنفو شیسزم CONFUCIANISM فلسفہ ہے ،ےا کوئی نظر یہ ہے؟ تاہم یہ نتیجہ ضرور اخذ کیا گیا ہے کہ اس کی تعلیمات میں مذکورہ بالا تینوں دبستانوں کے عناصر یکجا ہوگئے ہیں ۔ تاہم تقابل ادیان یا مختلف مذاہب کی جملہ صفات کے پیش نظر انہیں ہمارے دینی علوم کے ماہر مذہبی رہنما ماننے سے تو قاصر ہیں اسکی وجہ انکی چینی اور خاص کر کنفیوشیزم کا کم مطالعہ غالباًان کے لئے مشکل بنا ہے وگرنہ ان کی تعلیمات کا اثر لیتے ہیں جو ہو بہو ہمارے صوفیائے کرام کی تعلیمات سے ہم آہنگ ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اٹھارویں صدی میں تو کنفوشیزم کا اس حد تک شہرہ تھا کہ 1715 ءمیں گیارہویں پوپ کلیمنٹ x1 نے اسے عیسائیت کی تبلیغ کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے چینی کیتھو لک عیسائیوں کو کنفوشیزم کی تعلیمات سے یکسر علیحدگی اختیار کرنے کا فتویٰ دیا ۔( جاری ہے)

کنفو شیس کی تعلیمات کی کلیدی کتاب انگریزی میں ANALECTS جسے چینی زبان میں لُن یو LUNYU کہا جاتا ہے جو یقیناًاس کے پیرو کار نے کی اسکی وفات کے بعد مرتب کیا ۔ اس کتاب کے بین اابواب ہیں جن میں چیدہ چیدہ موضوعات حمدیہ نظمیں The Book of Songs /odes (SHIJING) تاریخ کی تدوین ( SHUJING )THE BOOK OF HISTORY اور لُو LU ریاست کی تاریخ The spring a Autumn Annals اس کلیدی کتاب کی تعلیمات کے بارے عام تاثر یہی ہے کہ اس نے خود کتب مرتب کرنے کی بجائے اپنے دیگر ہمعصر گو تم بدھ اور سقراط کی طرح چلتے پھرتے اپنے پیرو کاروں کو یہ تعلیمات دیں ۔ جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں اسے مطالعہ کا بے حد شوق تھا اور اس کا خیال تھا کہ مطالعے سے ہی انسان کے فکرو ذہن میں وسعت اور کشادگی آتی ہے اور اسی سے وہ ایک مضبوط کردار کی تعمیرو تشکیل کر سکتا ہے ہندو رشیوںاور عیسائی راہبوںکے مقابلے میں اسکی تعلیمات میں انسان ہو کر جانوروں اور درندوں میں رہنا کسی طرح بھی احسن نہیں بلکہ انسان کو انسانوں کے درمیان رہ کر ان کی بھلائی ، فلاح بہبود اور ان کے دکھ سُکھ کا ساتھی بننا چاہیئے اس کا زور ذاتی کردار میں اعلیٰ صفات ( تقویٰ ) اور حکومتی اخلاقیات کی درستگی کے ساتھ ساتھ سماجی تعلقات و روایات کی تصیح و تزئین ہے بلکہ اگر کہا جائے کہ اسکی تعلیمات کا بنیادی نکتہ عدل و انصاف پر مبنی صالح قیادت کی حکمرانی کی قدریں ہیں تو بے جانہ ہو گا ، اسی لئے صدیوں تک چین کی سیاسی و اقتصادی پیش رفت کا سہرا چین کے اسی بے تاج بادشاہ اور اسکی انسان دوست اور انسانیت نواز تعلیمات پر سجایا جاتا رہا ہے ۔
البتہ گذشتہ صدی کی چھٹی دہائی 1966-76 ءمیں جب چین میں ہر طرف یہ نعرہ گونج رہا تھا کہ جو نقش کہیں تم کو نظر آئے مٹا دو اس وقت کی قیادت نے کنفو شیس کو بھی سرمایہ دارانہ ذہنیت اور انقلاب مخالف قرار دیکر انقلابی جنو نیوں نے اس کے قدیم آثار کو نقصان پہنچایا اور اسکی تعلیمات کی تبلیغ و تفسیر پر پابندی لگا دی گئی ۔تاہم زمانے کے نرالے انداز ہیں کہ صداقت خودکو منوالیتی ہے ۔۔آج کنفوشیزم کا شہرہ چین کے ساتھ ساتھ جاپان، کوریا ، ویت نام ، انڈونیشیا ، ملائشیا تک پھیلا ہوا ہے اور خود حکومت چین نے پہلا کنفوشیس انسٹیٹیوٹ سیول جنوبی کوریا میں 2004 ءمین سرکاری طور پر قائم کیاہے ۔ جس میں چینی زبان اور تہذیب و ثقافت کے فروغ کا اہتمام کیاگیا ہے غالباًچینی حکومت کے سامنے برٹش کونسل ، گوئٹے انسٹیٹیوٹ اور جاپان فاﺅنڈیشن جیسے کئی ایک ماڈل موجود تھے لہٰذا وہ جو چینی کہتے ہیں “ چینی سو شلزم چین کے زمینی حقائق کے ساتھ ساتھ “ تو اب چینی حکومت نے بھی اپنے تہذیبی و ثقافتی وجود کے اظہار اور فروغ کیلئے فیصلہ کیا ہے کہ وہ دنیا بھر میں ایسے ہی ایک ہزار کنفوشیس انسٹیٹیوٹ قائم کرے گی جن میں تین سو سے زائد قائم کئے جا چکے ہیں پا کستان میں بھی نمل یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی میں یہ انسٹیٹیوٹ متحرک اور مستعد ہیں اور اب تیسرا ایسا ہی انسٹیٹیوٹ فیصل آباد میں قائم کیا جارہا ہے ۔ ہمارا آخری سوال تھا کہ اس بار پیش رفت میں ہمارے لئے کیا اس عبرت یا مقام ِ غور ہے ۔واضح رہے کہ کنفو شیزم کا زیادہ تر زور عدل وانصاف پر مبنی اور عوامی فلاح و بہبود کی حکمت عملیاں ہیں ۔
 یہی وجہ ہے کہ چین کی ترقی کا راز ہر فرد کو اسکی تعلیم اور صلاحیت کے مطابق منصب اور اعزازیہ عطا کرنا ہے لہٰذا اگر ہمارے ارباب اختیار و اقتدار بھی تاریخ سے سبق لیں اور اپنے ہی خاندانی افراد خوشامدیوں اور خوش چینیوں کی بجائے علم و صلاحیت عدل و انصاف اور مساوی مواقع کے اصول اپنائیں تو اس میں انکے لئے دین و دنیا کی بھلائی ہے اور جہاں عوام ہر دم ان سے لگن اور پیار کا اظہار کریں گے تو وہ بھی ان کے دلوں پر راج کرنے میں کسی سازش کا شکار نہیں ہوں گے ۔ صاحب افلاک انہیں بار بار مواقعے دیکر آزما رہا ہے مگر ان کی جبلی مجبوریا ں انہیںخود احتسابی اور عدل و انصاف کی طرف توجہ دینے کی مہلت ہی نہیں دے رہیں لہذا کا تب تقدیرشاید آخری بار اتمام حجت کر رہا ہے ورنہ دارالحکومت کی پندرہ لاکھ سے زائد آبادی کی نمائندگی وہ ایک اجنبی خاتون کو کیوں نیلا م کرتے ؟ 
               

مزیدخبریں