کرتار پور راہداری .... رواداری کی روشن مثال ( 2)


( گذشتہ سے پیوستہ ) بہرحال راہداری کے دوبارہ کھلنے کے بعد سے اب تک بیسیوں اہم سکھ شخصیات اور لاکھوں زائرین کرتارپور کا دورہ کر چکے ہیں۔ چند ہفتے قبل 4 اکتوبر 2022 میں کو ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور نامور گیند باز بِشن سنگھ بیدی اپنے اہلخانہ کے ہمراہ کرتار پور آئے ۔ ماہرین کے مطابق 1984 میں سکھوں کی نسل کشی کے بعد سبھی بھارتی خفیہ اداروں کی ہدایت پر کانگرس اور خصوصاً BJP نے شعوری کوشش کی کہ سکھوں کو کسی بھی طور واپس قومی دھارے میں لایا جائے اور اس مقصد کےلئے مختلف سطح پر بیک وقت کئی قلیل مدتی اور طویل المدتی پالیسیاں بنائی گئیں۔ مثلاً ایک جانب 1986 میں آر ایس ایس نے ” راشٹریہ سکھ سنگت“ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کو انتہائی منظم اور مربوط طریقے سے پورے بھارت کے سکھوں میں پروان چڑھایا گیا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپریشن بلیو سٹار کے بعد سے بھارتی حکومت (بھلے ہی وہ کانگرس ہو یا BJP ) نے دانستہ طور پر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ سکھ درحقیقت ہندوﺅں کا ہی ایک فرقہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خیال کو عملی شکل دینے کی غرض سے 2002 میں انڈین آرمی کے سابق سکھ ایئرمارشل ”ارجن سنگھ“ کو ”مارشل آف دی ایئر فورس“ کا اعزاز دیتے ہوئے انھیں بھارتی ایئر فورس کا واحد ”فائیو سٹار ایئرچیف “ بنانے کا انتہائی ”غیر معمولی“ قدم اٹھایا گیا ۔ یاد رہے کہ موصوف 1965 کی جنگ کے دوران بھارت کے ایئر چیف تھے۔ یوں انھیں جنگ کے 37 برس بعد نجانے کس ”خدمت “کے عوض یہ اعزاز بخشا گیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ بھارتی ایجنسیوں کی شہہ پر انڈین ایئر فورس کی پوری تاریخ پر بھاری یہ غیر معمولی قدم اٹھایا گیا جس کا مقصد صرف اور صرف یہی تھا کہ کسی بھی طور سکھ قوم میں موجود ہندو مخالف جذبات کو قدرے ٹھنڈا کیا جائے۔ واضح رہے کہ 16 ستمبر 2017 کو موصوف 98 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ بہرحال بات ہو رہی تھی راشٹریہ سکھ سنگت ، RSS اور BJPکی ملی بھگت کی۔ قابلِ توجہ ہے کہ 1986 میں راشٹریہ سکھ سنگت کے قیام کے بعد سے اب تک راجستھان، دہلی، اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور خصوصاً پنجاب میں اس کی 500 سے زائد شاخیں قائم ہو چکی ہیں۔دوسری جانب بھارتی سکھوں میں بھی خاصی حد تک RSSاور بھارتی ایجنسیوں کی اس سازش کا ادراک ہو چکا ہے۔تبھی تو 2004 میں ”اکال تخت“ کے اس وقت کے جتھے دار ”جوگندر سنگھ ودیانتی“ نے راشٹریہ سکھ سنگت کو ”سکھ دشمن“‘ تنظیم قرار دے دیا تھا۔ 2009 میں ایک سکھ تنظیم ”ببر خالصہ“ نے اس وقت کے راشٹریہ سکھ سنگت کے سربراہ رُلدا سنگھ کو پٹیالہ میں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اکتوبر 2017 میں اکال تخت کے جتھے دار گیانی گربچن سنگھ نے کہا تھا کہ ” RSS راشٹریہ سکھ سنگت کو استعمال کرتے ہوئے سکھ دھرم کو ہندو ازم میں ضم کرنے کی مذموم کوشش کر رہی ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں، بھارت کے لئے نمایاں کارنامے انجام دینے والے سکھ بھی جب پنجاب سے باہر جاتے ہیں تو انھیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، سکھ دھرم ہندو مذہب سے بالکل علیحدہ ہے اور سکھ ایک علیحدہ قوم ہے ، اگر آر ایس ایس اپنی حرکتوں سے باز نہ آئی تو اس کے نتائج خوش آئند نہیں نکلیں گے“۔ غیر جانبدار مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ سکھ قوم اور پاکستان کے مابین باہمی تعلق خاصی مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے، جسے اس خطے کے کلچر کیلئے اچھا شگون قرار دیا جانا چاہیے، اس کی بنیادی وجہ شاید یہ ہے کہ بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کے لوگوں نے تقسیم ہندوستان کے انسانی المیے کو جتنا قریب سے دیکھا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اکثر ماہرین متفق ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت تقریباً 10 لاکھ افراد موت کی بھینٹ چڑھ گئے اور ان میں سے 90 فیصد کا تعلق دونوں اطراف کے پنجاب ہی سے تھا۔ شاید یہی وجہ ہو کہ مشرقی پنجاب اور پاکستان حقیقی معنوں میں امن کے ”متلاشی“ ہیں۔ کرتار پور راہداری بھی اسی ضمن میں ایک بڑا قدم ہے۔ یوں بھی اگر یہ عمل آگے بڑھے تو اس کے دیر پا اثرات پورے جنوبی ایشیاءخصوصاً پاک و ہند کے مابین ثقافتی ہم آہنگی کا سبب بن سکتے ہیں اور آگے چل کر مقبوضہ جموں کشمیر کے منصفانہ حل میں بھی معاونت فراہم کر سکتے ہیں۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ ثقافتی روابط بعض اوقات مذہبی روابط سے بھی زیادہ مضبوط ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے میں آگے چل کر پورے جنوبی ایشیاءمیں معاشی ترقی ،خوشحالی و رواداری کے دروازے کھلنے میں معاونت مل سکتی ہے۔ یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ پاکستان کی حکومت، عوام اور سول سوسائٹی پہلے ہی سے اس ضمن میں مقدور بھر مثبت کردار ادا کر رہی ہے، ایسے میں عالمی برادری بھی اس حوالے سے اگر اپنا انسانی فریضہ نبھائے تو پورا جنوبی ایشیائی خطہ بہتر مستقبل کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔ (ختم شد) 

ای پیپر دی نیشن