یہ غلطی مت کرنا 

اب 8فروری کو عام انتخابات ہوں گے ۔ایک پارٹی کے سربراہ کو اسی طرح جیل میں بندکیاہوا ہے جس طرح70ءکے انتخابات میں مشرقی پاکستان کے مقبول ترین رہنما شیخ مجیب الرحمان کوکیا گیاتھا۔اب کی بار تحریک انصاف نشانہ ہے جس کے رہنماﺅں کوتوڑ تاڑ کر ایک غیر مقبول جماعت بنا کرنہ جانے کس سازش کو پروان چڑھایاجارہا ہے ۔کپتان کے علاوہ سبھی سیاسی رہنماﺅں کوکھلا میدان دیاگیا ہے اوروہ سیاست کے اس لکی ایرانی سرکس میں سدھائے ہوئے شیر اور لکڑی کے تیر تلواروں سے تماشہ کررہے ہیں۔ مزید مقام حیرت یہ ہے کہ لوگ یہ تماشہ دیکھنے کے لئے تیارنہیں ہیں ۔جب سے عام انتخابات کی تاریخ کااعلان ہوا ہے کسی جماعت کاجلسہ دیکھنے میں نہیں آیا جس نے جلسہ کرنا تھا اس کے رہنماﺅں کر پریس کانفرنسیں کروائی جارہی ہیں جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ جیل میں انتہائی دگرگوں حالات میں سانس لے رہے ہیں ۔نواز شریف برطانیہ سے واپسی پر منیار پاکستان پر ایک جلسہ کے بعد تھک گئے ہیں ۔اوررہے اپنے زارداری صاحب تووہ چونکہ خود کو سب پر بھاری سمجھتے ہیں اس لئے وہ پاکستان میں کسی جگہ عوامی جلسہ کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ایسے میں جب انتخابات ہوں گے تو ایک جماعت اور اس کے لیڈر کوکامیابی سے دوررکھنے یااس کی حاصل کردہ نشستوں کوکم کرنے کی غلطی سے کسی نہ کسی تحریک کے چلنے کا امکان موجود رہے گا۔سب کو یاد ہے کہ اس لیڈر نے نوازشریف سے ان کی کامیابی کے بعد قومی اسمبلی کے صرف چارحلقوں کو کھولنے کامطالبہ کیاتھا۔جس سے انکار پرانہوں نے اسلام آباد میں 126دن کا دھرنا دیا۔ وہ توا گر دہشت گرد پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملہ نہ کرتے اور قومی یکجہتی کے لئے فوجی اورسیاسی قیادت اکٹھی نہ ہوتی توشائد یہ دھرنا اس سے بھی طویل ہوتا اورریاستی نظام کا فالج مزید طویل ہوجاتا۔ہمارے حالیہ وسابقہ پاکستان میں انتخابات کی تاریخ بڑی سیاہ ہے۔اس میں روشنی کا کوئی استعارہ نہیں ۔70ءسے پہلے ملک میں لوگوں کو قومی وصوبائی اسمبلیوں میں ووٹ دینے کا حق نہ تھا۔ 64ءمیں جب جنرل ایوب خاں اورمادرملت محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی انتخابات کامعرکہ بپا ہوا تو عام آدمی کو صدر کے لئے ووٹ دینے کا حق نہیں تھا۔وہ چاہنے کے باوجودمادرملت کو ووٹ نہ دے سکے ۔بنیادی جمہوریت (BD)سسٹم کے تحت لوگ صرف گلی محلے کےلئے اپنے ووٹ کا استعمال کرسکے۔بہت سے امیدواروں نے عوام سے یہ وعدہ کیا تھاکہ وہ منتخب ہوکر مادرملت کوووٹ دیں گے ، اس نعرے پر جب وہ کامیاب ہوئے تو ووٹ جنرل ایوب کودے دیا مگر ایسازیادہ تر پنجاب میں ہوا۔مشرقی پاکستان ،بلوچستان اورکراچی میں BDممبران نے اپنے ووٹ مادرملت کودیئے مگر وہ ہار گئیں ۔کیسے ہارگئیں؟دھاندلی اوردھونس سے ۔ایوب خاں کے خلاف تحریک چلی مگر اس سانحے کے پورے پانچ سال بعد۔پھر جنرل یحییٰ خاں نے 70ءمیں "ایک فرد ایک ووٹ "کی بنیادپر ملک میں انتخابات کروائے ۔مشرقی پاکستان میں ماسوائے نورالامین اورراجہ تری دیو رائے کے تمام نشستیں مجیب الرحمان کی جماعت عوامی لیگ نے حاصل کرلیں اورمغربی پاکستان کے دوصوبوں پنجاب اورسندھ میں ذوالفقار علی بھٹو نے اکثریت حاصل کرلی۔جبکہ خیبر پختون خواہ اوربلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اورمفتی محمود نے اکثریت حاصل کرلی ۔ملکی سطح پر عوامی لیگ نے 300میں سے 160پاکستان پیپلز پارٹی نے 81اورباقی نشستیں دیگر پارٹیوں نے حاصل کیں۔سب سے برا حال جماعت اسلامی کاہواجس نے طوفانی پراپیگنڈے کے باوجود صرف 4نشستیں حاصل کیں ۔انتخابات کے انعقاد کے بعد یحییٰ خاں نے ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کااجلاس بلایا اورپھر اسے ملتوی کردیا۔جس کاحاصل ضرب مشرقی پاکستان میں ایک ایسی تحریک تھی جواپنے حق کے لئے اٹھی ،انڈیامدد کیلئے آیا۔پاکستانی فوج کوان کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے اورمشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔دراصل ایوب خاں کے بوئے ہوئے کانتیجہ تھا جوآہستہ آہستہ ایک تنا ور درخت کی شکل اختیار کرگیا تھااورقائدا عظم کاپاکستان یکے بعد دیگرے آنے والے دوجرنیلوں نے دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔مگر افسوس کہ اس کے بعد بھی طالع آزمائی کا سلسلہ رک نہ سکا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد جب کچھ شرمندہ شرمندہ سے رہنے لگے تو نہائت مجبوری کے عالم میں اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کرنا پڑا اوروہ بھی چیف مارشل لاءایڈمنسٹریڑ کے ”تخلص“کے ساتھ۔بھٹو حکومت کے خلاف پہلے جنرل گل حسن اورایئر مارشل رحیم سازشیں کرتے رہے مگرکامیابی جنرل ضیاءالحق کے حصے میں آئی جنہوں نے گیارہ سال تک پاکستان پر حکومت کرکے اسے کم ازکم ایک سوسال پیچھے دھکیل دیا۔ مگر طالع آزمائیاںاور مہم جوئیاں پھر بھی ختم نہ ہوسکیں اور پرویز مشرف نے 12اکتوبر99ءکو اس بدنصیب ملک کی عنان اقتدارسنبھال لی اور افغانستان کی شکل میں پاکستان کو ایک نیا دشمن مستقل طورپر عطا کردیا۔ ایسی غلطیاں ان گنت ہیں مگرخدارا اب کی بار کسی سیاسی لیڈر کے ساتھ مجیب الرحمان والا سلوک نہ کرنا۔ قوم یہ صدمہ برداشت نہیںکر سکے گی۔ 

سلیمان کھوکھر-----چہرے

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...