وفاقی حکومت نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں تین رکنی انکوائری کمیشن کا نوٹیفکیشن اور دس ٹی او آرز سپریم کورٹ میں پیش کر دیئے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے واضح کیا کہ کمیشن اگر کسی کو بلائے اور وہ نہ پیش ہوا تو کمیشن گرفتار کروانے کا اختیار بھی رکھتا ہے۔ وفاقی حکومت کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق وفاقی حکومت نے فیض آباد دھرنا کے محرکات جاننے کیلئے سپریم کورٹ کے حکم پر تین رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیدیا ہے جس کی سربراہی ریٹائرڈ آئی جی اختر علی شاہ کریں گے، سابق آئی جی طاہر عالم، ایڈیشنل سیکرٹری وزارت داخلہ خوشحال خان بھی تین رکنی کمیشن میں بطور ممبر ہونگے۔ وفاقی حکومت نے کمیشن کے 10 ٹی او آرز بھی سپریم کورٹ کے حکم کے تحت طے کردیئے ہیں۔
طے کردہ ضابطہ کار کے مطابق فیض آباد دھرنے کیلئے تحریک لبیک پاکستان کو غیر قانونی مالی معاونت فراہم کرنے یا کسی اور طرح کی معاونت کی تحقیقات کر ے گا، نقصان پہنچانے کی غرض سے فتوے یا احکامات جاری کرنے والوں کیخلاف کارروائی کی تجویز انکوائری کمیشن دے گا، پیمرا کو بے عمل کرنے والوں کیخلاف انکوائری ہوگی، انکوائری کمیشن نفرت انگیز اور پرتشدد مواد کی سوشل میڈیا پر تشہیر کرنے والوں کا تعین کرکے سدباب کیلئے تجاویز دے گا ،کمیشن قانونی خلاف ورزی یا ذمہ داری ادا کرنے میں غفلت پر کسی فرد یا پبلک آفس ہولڈر کا تعین کرے گا،کمیشن اس وقت کے خفیہ اداروں سمیت سرکاری اداروں کے افسران کی ذمہ داریوں کا تعین بھی کریگا،کمیشن اس بات کا بھی تعین کریگا کہ انٹیلی جنس اداروں اور سرکاری افسران کیخلاف محکمانہ کارروائی مطلوب ہے تو کیا کارروائی ہونی چاہیے،کمیشن دھرنے اور ریلیوں کے حوالے سے انٹیلی جنس ایجنسیوں اورپولیس کے کردار کا بھی تعین کریگا،کمیشن تجویز دے گا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں موثرنگرانی کریں کہ نفرت انگیز، انتہاپسندانہ اور دہشتگردانہ مواد پھیلانے والوں کے خلاف کاروائی کرے،وفاقی حکومت سمیت صوبائی حکومتیں کمیشن کی معاونت کی پابند ہوں گی،کمیشن کا سیکریٹریٹ اسلام اباد میں ہوگا اور اپنا سیکرٹری ہوگا،کمیشن کے اخراجات وفاقی حکومت برداشت کرے گی،کمیشن دو ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے وفاقی حکومت کو رپورٹ بھجوائے گا،اگر کمیشن کو دو ماہ سے زائد وقت چاہیے تو پھر حکومت سے توسیع کی اجازت لینا ہوگی،کمیشن سوشل میڈیا پر پھیلائے گئےنفرت انگیز اور پرتشدد مواد کا جائزہ لے کر سدباب کے لئے تجویز دے گا۔ حکومتی نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا کہ فیض آباد دھرنے کے سبب شہریوں کو عدالتوں، دفاتر، سکولوں، ہسپتالوں میں پہنچنے میں دشواریاں اور مشکلات تھیں، فیض آباد دھرنا کے سہولت کار، دھرنے دینے والے اور مجرمان نے آئین پاکستان میں دیئے گئے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کو لگتا ہے ماضی میں اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا، 100 سال بعد بھی یہ سچ نہیں بولا جائے گا کہ نظرثانی درخواستیں کس نے دائر کروائیں، ملک میں نفرتیں پھیلانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، اپنے ملک کے سب سے بڑے دشمن خود ہیں، کوئی سڑکیں بند کر کے جلاو¿ گھیراو¿ کرکے ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہے، دوبارہ موقع ملے تو کیا پھر سے ملک کی اسی طرح خدمت کریں گے۔ رپورٹ کے مطابق اٹارنی جنرل نے نوٹیفیکیشن عدالت میں پیش کرتے ہوئے انکوائری کمیشن کے ٹی او آر پڑھ کر سنائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت دفاع میں سے کسی کو کمیشن میں کیوں شامل نہیں کیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تمام صوبائی اور وفاقی حکومتیں اس کمیشن سے تعاون کرنے کی پابند ہیں، کمیشن کو مزید وقت درکار ہوا تو وفاقی حکومت وجوہات ریکارڈ کر کے مزید وقت دے گی۔ سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس اور اس کے متعلق پیش ہونے والے ٹی آر او کو بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ عدالتی کمیشن برائے فیض آباد دھرنا کے ٹی او آر دیکھ کے یہ ثابِت ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پر شتر بے مہار اور لاڈلہ پن کے الزامات محض رولا رپا ہی ہے۔ طاقت کا اصل محور مملکت خداداد میں عدالتیں ہی ہیں اور اس میں کوئی شک کی بات نہیں ہے کہ پاکستان میں پارلیمنٹ ، اسٹیبلشمنٹ اور دیگر ادارے عدالتوں کی نظر کرم کے محتاج ہوتے ہیں۔عدالتوں کی طاقت کے حوالے سے بات کریں تو انہی عدالتوں نے نواز شریف کو نا اہل کیا، عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران رات کے پچھلے پہر عدالتیں کھلیں اور وہ تحریک عدم اعتماد کے ذریے گھر گئے، پھر وہی عمران خان گرفتار ہوئے تو عدالت کے حکم پر ہی لگژری کار میں لائے گئے، پنجاب اسمبلی میں وزیراعلی کے انتخاب کے موقع پر عدالت کے حکم پر انفرادی رائے کے عمل کو معطل کیا گیا۔ میاں نوازشریف چار سال قبل ایک پچاس روپے کے اسٹامپ پیپر پر علاج کیلئے عدالت کے حکم پر باہر گئے اور پھر انہی عدالتوں نے میاں نوازشریف کو واپسی پر ضمانتیں دیں۔ یہ سب کچھ کر عدالتیں رہی ہوتی ہیں لیکن یار لوگ اس کا الزام بھی اسٹیبلشمنٹ پر لگا دیتے ہیں۔ یوں ظاہر کرتے ہیں کہ اسٹیبشلمنٹ ہی طاقت کا اصل سرچشمہ ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
تاہم ایک چیز واضح ہے کہ موجودہ عسکری قِیادت کسی قسم کے ابہام کا شکار نہیں اور کسی اور کا بوجھ ا±ٹھانے سے انکاری ہے۔ ان کا رویہ ان کی پاک دامنی اور قانون کی حکمرانی پر کاربند رہنے کا عکاس ہے۔ اب فوجی عدالتیں ختم کر دی گئیں، فیض آباد دھرنا کیس کے ٹی آر او طے ہو گئے، فوجی قیادت کو عدالت طلب کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن ان سب کے باوجود موجودہ عسکری قیادت کے کردار پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ وہ ملک کو مزید کسی بحران میں نہیں ڈالنا چاہتے اور قانون کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہیں۔ اس وقت موجودہ عسکری قیادت کا یہ عزم ہے کہ ادارے نے کسی قِسم کا تصادم مول نہیں لینا ہے بلکہ ان کی نظریں مکمل مرکوز ہیں بنیادی مسائل پر نہ کہ ان چیزوں پر جن کا ملک کے حال اور مستقبل سے کوئی واسطہ نہیں۔ اعلیٰ اداروں کے سربراہان سے گزارش ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت ملک جن مسائل میں گھرا ہوا ہے ہمیں ان کا تدارک کرنا چاہئے نہ کہ گڑے مردے اکھاڑ کر ان مسائل کو مزید اُلجھایا جائے۔