پاکستان کے منصوبے کاغذی طور پر اچھے، ماہر سٹاف کی قلت، بجٹ تیاری کمتر، آئی ایم ایف

اسلام آباد (عترت جعفری) آئی اےم اےف نے پاکستان مےں منصوبوں کی تےاری اور ان کی نگرانی کو کاغذی طور پر اچھا قرار دےتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے پاس مہارت ےافتہ سٹاف کی کمی ہے جو اصلاحات کو آگے بڑھا سکےں، بجٹ کی تےاری بھی کم تر درجہ کی ہے، کرنٹ اور ترقےاتی بجٹ کو الگ الگ وزارتےں تےار کرتی ہےں، عدم موافقت پیدا ہوتی ہے۔ پی اےس ڈی پی اب مالی طور پر قابل برداشت نہےں رہا ہے۔ آئی اےم اےف نے پبلک انویسٹمنٹ مینجمنٹ اسیسمنٹ اور کلائمیٹ اسیسمنٹ رپورٹ جاری کر دی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں آبادی کی افزائش کی رفتار اور تنوع کے باعث اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ انفراسٹرکچر ملکی معاشی ترقی اور سروس کی ڈلیوری میں مدد کرے، عوامی سرمایہ کاری میں کیپٹل سٹاک اور اس کی کارکردگی بہت ہی کمتر درجہ کی ہے، موسمیاتی خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بہت کم ہے، پاکستان میں’ ماحولیاتی حساس پبلک انویسٹمنٹ مینجمنٹ‘ ابھی ترقی کے ابتدائی مرحلے میں ہے، 2018 نیشنل پلان کی تیاری میں ناکامی کی وجہ سے قومی منصوبہ بندی کے عمل میں رخنا پڑا۔ این اے سی اگرچہ پی ایس ڈی پی کے ذریعے ترقیاتی پروگرام کو چلانے کا موثر طریقہ ہے تاہم پاکستان میں اس کے ساتھ ساتھ سرکاری تحویل کے ادارے، اور دیگر وفاقی ادارے بھی اپنے ریونیو کے ساتھ انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کرتے ہیں، تاہم رابطہ کا فقدان نظر آتا ہے۔ پاکستان جس کے پاس بہت ہی محدود بجٹ کے وسائل ہیں اس لیے اسے ضرورت ہے کہ وہ درست منصوبے کا انتخاب کرے، پی ایس ڈی پی کے تحت جاری منصوبوں کے لیے جو فنڈز مختص کیے جاتے ہیں وہ منصوبے پر عمل درآمد کے لیے نا کافی ہوتے ہیں، جس سے منصوبے کے ثمرات تاخیر ہوتی ہے، پی ایس ڈی پی میں 10.7 ٹریلین روپے کے منصوبے شامل ہیں، جبکہ بجٹ میں ان کے لیے 727 بلین روپے رکھے گئے، یعنی ان منصوبوں کے لیے اس رقم سے 14 گنا وسائل کی ضرورت ہے، حکومت نے گزشتہ بجٹ میں 2.3 ٹریلین روپے لاگت کے مزید منصوبے شامل کر دیے، پلاننگ کمیشن اور فائنانس ڈویژن کی طرف سے الگ الگ تیاری کی وجہ سے عدم موافقت پیدا ہوتی ہے اور فیصلہ سازی بھی کم تر درجہ کی ہوتی ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کی نیشنل سیکٹر پلاننگ کو’ ادارہ جاتی صلاحیت موثر‘ ہونے کے اعتبار سے کم تر درجہ کا قرار دیا گیا، اداروں کے درمیان رابطہ کو درمیانہ درجہ دیا گیا ہے، بجٹ کی جامعیت کو بھی کمتر درجہ کا قرار دیا گیا ہے۔ مرمت کی فنڈنگ کو بھی کمتر درجہ کا قرار دیا گیا ہے، پاکستان میں پبلک انویسٹمنٹ میں کمی بیشی ہوتی رہی، 18۔ 2017 یہ 2000 ارب روپے تھی 21۔ 2020 یہ گر کر 1700 ارب روپے ہو گئی، آئی ایم ایف نے سفارش کی ہے کہ ایک پانچ سالہ حکمت عملی بنائی جائے، جس میں تمام سیکٹرز کے بڑے پروجیکٹس کی نشاندہی کی جائے، ان کے لیے وسائل کی نشاندہی کی جائے۔

ای پیپر دی نیشن