حافظ محمد عمران
پاکستان کرکٹ بورڈ میں تبدیلیوں کا سیزن ہے۔ مکی آرتھر اور ان کے منظور نظر کوچنگ سٹاف کی چھٹی کرا دی گئی ہے۔ پاکستان ٹیم جب آسٹریلیا کا سفر کرے گی تو مکی آرتھر اور ان کے ساتھی کوچز قومی ٹیم کے ساتھ نہیں ہوں گے بلکہ ان کی جگہ پاکستانی چہرے نظر آئیں گے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے سابق کپتان محمد حفیظ کو مکی آرتھر کی جگہ قومی ٹیم کا ڈائریکٹر مقرر کر دیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ ہیڈ کوچ کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ کوچنگ سٹاف کا فیصلہ بھی ان کی مشاورت یا مرضی سے کیا جائے گا۔ اس سے پہلے ذکا اشرف نے محمد حفیظ کو پی سی بی کی ٹیکنیکل کمیٹی میں بھی شامل کیا تھا لیکن ورلڈکپ سے قبل وہ ٹیکنیکل کمیٹی سے الگ ہو گئے۔ اب انہیں یہ نئی ذمہ داری ملی ہے۔ محمد حفیظ کا شمار ان کرکٹرز میں ہوتا ہے جن پر پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ ذکا اشرف بہت اعتماد کرتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ دورہ آسٹریلیا کے لیے کیا حکمت عملی تیار کرتے ہیں۔ صرف محمد حفیظ کو ہی اہم ذمہ داری نہیں ملی بھارت میں کھیلے جانے والے ورلڈکپ میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر بابر اعظم نے بھی کپتانی چھوڑ دی ہے۔ انہیں یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا گیا یا بابر اعظم واقعی عہدہ چھوڑنا چاہتے تھے یہ ایک الگ بحث ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ بحیثیت کپتان وہ ٹیم بنانے، بہتر کھلاڑیوں کو منتخب کرنے، فزیکل فٹنس کے معاملے میں عالمی سطح کا معیار برقرار رکھنے اور دستیاب کھلاڑیوں کی صلاحیتوں سے بہتر انداز میں فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔ میچ کے دوران ان کی فیصلہ سازی نے کئی سوالات کو جنم دیا وہ متعدد مرتبہ ایسے فیصلے کرتے رہے جس سے ایک کپتان کی کھیل کی سمجھ بوجھ پر حیرانی ہوتی ہے۔ وہ جتنا عرصہ بھی کپتان رہے سکواڈ اور پلینگ الیون کے معاملے میں پسند نا پسند اور یاری دوستی کی باتیں عام تھیں۔ ماہرین کے ساتھ ساتھ بابر اعظم کے ساتھ کھیلنے والوں نے بھی ان کی سلیکشن پر سنجیدہ اعتراضات اٹھائے ہیں۔ بہرحال اب بابر اعظم کا دور اختتام پذیر ہو چکا ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ایک بہترین بلے باز ہیں اور وہ تینوں فارمیٹ میں قومی ٹیم کی ضرورت ہیں۔ وہ نوجوان بلے بازوں کو درست بیٹنگ کا سب سے بہتر سبق دے سکتے ہیں۔ ان کی بلے بازی سے پاکستان کرکٹ کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بابر اعظم کو بھی پوری توجہ اور دلجمعی کے ساتھ بیٹنگ کرتے ہوئے ٹیم کی کامیابیوں میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ بابر اعظم کی جگہ شان مسعود کو ٹیسٹ ٹیم کا کپتان بنا دیا گیا ہے جب کہ ٹونٹی ٹونٹی ٹیم کی قیادت شاہین آفریدی کریں گے۔ شان مسعود کو مینجمنٹ کمیٹی کے سابق سربراہ نجم سیٹھی نے ٹیم کا نائب کپتان مقرر کیا تھا لیکن بابر اعظم نے انہیں پلینگ الیون میں بھی شامل کرنے سے انکار کر دیا تھا اب وہی شان مسعود ٹیسٹ ٹیم کے کپتان بن گئے ہیں۔ شان مسعود کہتے ہیں کہ ایک ایسی برانڈ کی کرکٹ کھیلیں جو ہماری شناخت بنے۔ پاکستان کیلیے کھیلنا ہی اعزاز کی بات ہے ٹیم کی قیادت کا موقع دینے پر پی سی بی کا شکر گزار ہوں۔ ریڈ بال مشکل فارمیٹ ہے، یہ ایک چیلنج ہے۔ ہم سب مل کر ٹیم کو آگے برھانے کی کوشش کریں گے۔پاکستان کی قیادت ایک مشکل کام ہے اور ان کا پہلا امتحان ہی آسٹریلیا ہے جہاں پاکستان کو ہمیشہ ہی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ پاکستان کے پاس کوئی تجربہ کار سپنر نہیں ہے نہ ہی فاسٹ باولنگ میں جان نظر آتی ہے ان حالات میں شان مسعود کے لیے آسٹریلیا کا دورہ بہت بڑا امتحان ہے۔ شاہین شاہ آفریدی کہتے ہیںکہ پاکستان ٹی ٹونٹی ٹیم کی قیادت میرے لیے باعث فخر ہے، اس ذمہ داری کے لیے بہت پرجوش ہوں۔ ٹیم سپرٹ کو برقرار رکھنے اور ملک و قوم کا نام روشن کرنے کی پوری کوشش کروں گا، ہماری کامیابی اتحاد، اعتماد اور انتھک محنت میں ہے۔ قومی ٹیم کی قیادت کا موقع دینے پر پی سی بی کا مشکور ہوں جب کہ شائقین کے اعتماد اور حمایت کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
قومی ٹیم میں ہونے والی یہ تبدیلیاں عالمی کپ میں ہونے والی ناکامیوں کا نتیجہ ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملکی کرکٹ کے معیار کو بلند کرنے کے لیے صرف ان چیزوں کی ضرورت ہے۔ اس کا فیصلہ میں قارئین نوائے وقت پر چھوڑتا ہوں۔جہاں تک تعلق مینجمنٹ کمیٹی کے بے اختیار چیئرمین ذکاءاشرف کا ہے نوٹیفکیشن کے مطابق وہ صرف روز مرہ کے معاملات کو ہی دیکھیں گے لیکن وہ تو دھڑا دھڑ اہم فیصلے کر رہے ہیں۔ گذشتہ ایک برس سے عالمہ سطح پر پاکستان کرکٹ کا مذاق بنا ہوا ہے اور حکومت کو اس کی کچھ خبر نہیں اگر ذکا ءاشرف کو اختیارات کے بغیر ہی توسیع دینا تھی تو پھر اس توسیع کی کیا ضرورت تھی۔ ہم کیوں خود اپنا تماشا بنا رہے ہیں۔
بابراعظم کے دور کا خاتمہ، اب نظریں شان مسعود اور شاہین آفریدی پر
Nov 18, 2023