زراعت کا شیر: ممتاز منہیس خان

میرا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے ہے، اور بچپن سے ایک چیز جو والد صاحب سے وراثت میں ملی، وہ یہ سبق تھا کہ جو بھی کام کرو، کمال کرو۔ اسی نصیحت نے مجھے ہمیشہ ان لوگوں سے ملاقات کی ترغیب دی جو کچھ کر دکھانے کی لگن رکھتے ہیں یا کر چکے ہیں۔ انہی ملاقاتوں نے مجھے زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا، کیونکہ جو سبق دوسروں کے تجربات سے سیکھا جا سکتا ہے، وہ کسی کتاب سے نہیں ملتا۔
چند دن پہلے اپنے اساتذہ کے ساتھ ممتاز منہیس فارم جانے کا موقع ملا۔ اس دورے نے میرے دل پر محبت، ادب، شفقت، اور جدت کی مہر لگا دی۔ 350 ایکڑ پر پھیلا ہوا یہ فارم زراعت کے میدان میں ایک نئی سمت کا عکاس ہے۔ فارم میکنائزیشن، جس پر حکومتِ وقت ابھی سوچ رہی ہے، اس شیر نے وہ کام پہلے ہی انجام دے دیا ہے۔
یہاں گائے کے گوبر سے گیس بنانے کا منصوبہ چل رہا ہے، بایوفلاک سسٹم کے ذریعے مختلف اقسام کی مچھلیاں پالی جا رہی ہیں، اور فارم کے جانوروں کے ساتھ خاص انسیت کا مظاہرہ بھی قابلِ دید ہے۔ فارم کی حدود میں کہیں ٹنل فارمنگ ہو رہی ہے تو کہیں جدید مشینری زمین سے کھیل رہی ہے۔ مختلف اقسام کے ٹریکٹرز، ہل، اور سیڈرز نے زراعت کو ایک نئی جہت دی ہے۔
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ممتاز منہیس خان کو زراعت کا شیر کیوں کہا جاتا ہے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ علم کے ساتھ اگر ادب نہ ہو تو انسان جاہل ہی رہتا ہے۔ جب میں فارم پہنچا تو ایک نہایت سادہ شخص، پاؤں میں پرانی چپل اور چہرے پر مسکراہٹ سجائے، ہمارا استقبال کر رہا تھا۔ انہوں نے خود کو تعارف کرواتے ہوئے کہا، ‘‘میں ہوں ممتاز منہیس۔’’
ان کی مہمان نوازی نے دل جیت لیا۔ ان کا مٹی سے عشق ان نوجوانوں کے لیے ایک سبق ہے جو ملک چھوڑنے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔ یہ فارم دیکھ کر دل سے آواز آئی:
زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!
ایک اور متاثر کن بات یہ ہے کہ ممتاز منہیس خان نے لوگوں کو سکھانے کا ایک منفرد جذبہ پیدا کیا ہے۔ ان کے فارم پر زرعی گریجویٹس کے لیے انٹرن شپ پروگرام موجود ہے، جہاں کھانے، رہائش، اور رہنمائی کی سہولت مفت فراہم کی جاتی ہے۔ خان صاحب خود کو ہر وقت دستیاب رکھتے ہیں اور نوجوانوں کو جدید زراعت سکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
سب سے زیادہ متاثر کن چیز خواتین کے لیے انٹرن شپ پروگرام ہے، جس میں ان کی اہلیہ کا کردار قابلِ ستائش ہے۔ یہ پروگرام قوم کی بیٹیوں کو آزادی اور اعتماد کے ساتھ جدید زراعت سیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ والدین کا اس فارم پر اعتماد دیکھ کر حوصلہ بڑھتا ہے۔ یہ بات یقیناً قابلِ غور ہے کہ کسی قوم کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے محسنوں کو یاد رکھے اور ان کی حوصلہ افزائی کرے۔
حکومتِ وقت کو چاہیے کہ اس زراعت کے شیر اور محبت بانٹنے والے شخص کو ستارہ امتیاز سے نوازے۔ آج ہمیں ہر شعبے میں حسد، بغض، اور منفی کرداروں کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے قوم کے محسنوں کا دستِ بازو بننا ہوگا، کیونکہ یہی مایوسی سے نکلنے کا راستہ ہے۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ اس مٹی کے عاشق کو سلامت رکھے اور ان کے جذبے کو مزید بلند کرے

ای پیپر دی نیشن