ماحولیاتی آلودگی ایک سنگین مسئلہ ہے جس نے اس وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہوا ہے۔ یہ صرف ایک ماحولیاتی چیلنج نہیں بلکہ فطرت کے خلاف انسان کی بے پرواہی اور بغاوت کا نتیجہ ہے۔ فطرت نے ہمیں صاف ہوا، شفاف پانی، زرخیز زمین، اور ایک متوازن ماحولیاتی نظام عطا کیا، آج دنیا جس گلوبل وارمنگ کی بات کرتی ہے یہ ایک دن،مہینے،سال یا عشرے کی بات نہیں بلکہ اس کے پیچھے انسان کی جانب سے کئی صدیوں کی لاپروائیاں شامل ہیں۔ انسان نے ترقی کی دوڑ میں قدرت کی طرف سے عطا ہونے والی بہت سی نعمتوں کی بے قدری کی اور اپنی ناعاقبت اندیشی،لاپروائی کی وجہ سے دستیاب نعمتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے فطرت کے اصولوں کو توڑا ۔جس ماحولیاتی آلودگی کا آج کی دنیا کو سامنا ہے اس میں فضائی، آبی، زمینی، اور شور کی آلودگی شامل ہیں۔ فیکٹریوں سے نکلنے والے دھواں، گاڑیوں کے اخراج،زرعی زمینوں پر بے تحاشہ ہاوسنگ سوسائٹیز اور جنگلات کی کٹائی نے ہوا کو زہریلا بنا دیا ہے۔صنعتی فضلے اور گندے پانی کو دریاؤں اور سمندروں میں بہانے سے پانی کی کیفیت بگڑ رہی ہے، جو آبی حیات کے لیے جان لیوا ثابت ہورہی ہے۔ پلاسٹک، کیمیکلز اور دیگر غیر بایو ڈیگریڈیبل اشیاء کے زیادہ استعمال نے زمین کی زرخیزی کو نقصان پہنچایا ہے۔مشینری، گاڑیوں، اور شہری علاقوں کے بے ہنگم شور نے انسانی ذہنی سکون کو تباہ کر دیا ہے۔ماحولیاتی آلودگی کے اثرات نا صرف انسانوں بلکہ زمین پر موجود تمام جانداروں پر پڑ رہے ہیں۔ گلوبل وارمنگ، قدرتی آفات، بیماریوں کا پھیلاؤ، اور حیاتیاتی تنوع کا خاتمہ انہی اثرات کا نتیجہ ہیں۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت گلیشیئرز کو پگھلا رہا ہے، سمندری سطح بلند ہو رہی ہے، اور دنیا شدید موسمی تبدیلیوں کا شکار ہو رہی ہے۔ماحولیاتی آلودگی کی بڑی وجوہات میں صنعتی ترقی، شہری آبادی میں اضافہ، غیر مستحکم زراعتی طریقے، اور فطرت کے اصولوں کو نظر انداز کرنا شامل ہیں۔ انسان نے مختصر مدتی فوائد کے لیے قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا اور اپنی ضرورت سے زیادہ آسائشوں کی تلاش میں فطرت کے توازن کو نقصان پہنچایا۔فطرت کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کیے بغیر اس مسئلے کا حل ممکن نہیں۔
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو جہاں عبادت،اخلاقیات،روایات پر عمل کے لیے حکم دیا ہے وہیں ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کے لیے قدرتی وسائل کے استعمال کے بارے بھی واضع ہدایات جاری کی ہیں۔قدرتی وسائل کا تحفظ اور ان کا درست استعمال اسلامی تعلیمات کا اہم حصہ ہے۔ پانی جیسی نعمت اور درختوں کی اہمیت کے بارے میں قرآن و حدیث میں واضح ہدایات موجود ہیں۔پانی اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے، جس کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:''اور ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا۔'' (سورۃ الأنبیاء: 30)۔ رسول اللہ ﷺ نے پانی کے فضول استعمال سے منع فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:''وضو کرتے وقت بھی پانی ضائع نہ کرو، خواہ تم بہتے ہوئے دریا پر ہو۔'' (سنن ابن ماجہ)۔قرآن و حدیث سے ہمیں اس بات کی تعلیم ملتی ہے کہ پانی کو حتی الامکان ضائع ہونے سے بچانا چاہیے، چاہے پانی کی فراوانی ہی کیوں نہ ہو۔پانی کا مناسب استعمال نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے بلکہ یہ معاشرتی اور ماحولیاتی لحاظ سے بھی ضروری ہے۔ آج کے دور میں پانی کی کمی اور آلودگی جیسے مسائل نے اس کی اہمیت کو اور بڑھا دیا ہے۔درخت زمین کی زینت اور زندگی کے لیے ضروری ہیں کہ نبی پاک ؐ نے درخت لگانے کے عمل کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے درختوں اور پودوں کو اپنی نشانیوں میں شمار کیا ہے:''اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس سے ہر قسم کے خوشنما نباتات اگائے۔)۔رسول اللہ ﷺ نے درخت لگانے کی اہمیت کو کئی احادیث میں بیان فرمایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:''جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا کھیتی کرتا ہے، پھر اس میں سے پرندے، انسان یا جانور کھاتے ہیں تو وہ اس کے لیے صدقہ بن جاتا ہے۔'' (صحیح بخاری)یہ حدیث درخت لگانے کے دینی، سماجی اور اخروی فوائد کو بیان کرتی ہے۔ درخت نہ صرف سایہ اور پھل مہیا کرتے ہیں بلکہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے اور زمین کی خوبصورتی بڑھانے کا ذریعہ بھی ہیں۔ اور جب تک وہ درخت کسی بھی شکل میں فائدہ پہنچاتے رہتے ہیں ،درخت لگانے والے کے نامہ اعمال میں نیکیاں شامل ہوتی رہتی ہیں۔پانی اور درخت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتیں ہیں، جن کا صحیح استعمال اور تحفظ نہایت ضروری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ پانی کو فضول ضائع ہونے سے بچائیں اور زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں تاکہ نہ صرف دنیاوی فوائد حاصل ہوں بلکہ آخرت میں بھی اجر و ثواب کے حقدار بن سکیں۔ یہ عمل نہ صرف ہماری ذاتی زندگی کے لیے بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا۔
صاحبو!ماحولیاتی آلودگی نہ تو ایک دن میں ہم پر مسلط ہوئی ہے اور نہ ہی یہ ایک دن کے اعلانات،اقدامات اور پیغامات سے ختم ہوسکتی ہے ۔اس وبا سے جان چھڑانے کے لیے ہر فرد کو ،درخت لگا کے،پانی کا مناسب استعمال کرکے،گاڑی،موٹر سائیکل سے پریشر ہارن اتار کے،اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا۔وہیں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماحول کو بہتر بنانے کے لیے منصوبہ بندی کرے۔ندی نالوں،جھیلوں،نہروں اور دریاں میں گٹروں کا پانی شامل ہونے سے روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔زیر زمین پانی کے ذخائر بڑھانے کے لیے برسات کے پانی کو سمندر برد ہونے سے پہلے تالاب،ڈیم اور دوسرے طریقوں سے محفوظ کیا جائے۔علما کرام جمعہ کے خطبات میں اور استاد سکول کی اسمبلی میںآگاہی مہم شروع کریں کہ صاف پانی میں گند ا پانی ملانا بھی گناہ جیسا عمل ہے ۔حکومت کا فرض ہے کہ ملک بھر میں دور جدید کے تقاضوں کے مطابق الیکٹرک پبلک سواری کا انتظام کریں۔بڑی بڑی ہاوسنگ سوسائٹیز بنانے کی بجائے چھوٹا خاندان اور چھوٹا گھر کی اہمیت اجاگر کی جائے۔ اگر ہم نے اب بھی اقدامات نہ کیے تو ہماری آنے والی نسلوں کو ایک غیر محفوظ اور غیر صحت مند دنیا ورثے میں ملے گی۔ فطرت کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے اور ماحول کے تحفظ کے لیے ہمیں اپنی سوچ اور عادات میں تبدیلی لانا ہوگی، کیونکہ فطرت سے بغاوت کا انجام ہمیشہ نقصان دہ ہوتا ہے۔