’’نوجوانوں کو گمراہ کیا جارہا ہے‘‘

Nov 18, 2024

نسیم الحق زاہدی

بلوچستان میں بیرونی فنڈنگ سے چلنے والی دہشت گرد تنظیمیں بلوچستان کا امن وامان تباہ کیے ہوئے ہیں۔یاد رہے کہ موسی خیل راڑ شم قومی شاہراہ پر 23افرا د کو بسوں سے اتار کرشناخت کے بعد قتل کیا گیا تھا،اس دہشت گردانہ کاروائی میں پنجاب یونیورسٹی کاتھرڈ سمسٹر کاطالب علم بی ایل اے کا دہشت گرد طلعت عزیز نے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے کے بعد بتایا کہ کس طرح اس کو پنجابیوں اور نہتے لوگوں کو مارنے پر مجبورکیا گیا تھا۔طلعت عزیز نے بتایا کہ اس کا تعلق کوئٹہ سے ہے اوراس نے ابتدائی تعلیم یہیں سے حاصل کی،میٹرک کے بعد سبی کالج میں داخلہ لیا اور پھر اچھے نمبروں کی بنیاد پر پنجاب یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے شعبے میں اسکالر شپ پر داخلہ حاصل کیا۔وہاں تھرڈ ائیر میں زیر تعلیم تھا جہاں اس کا رابطہ بلوچ کونسل کے طلبہ سے ہوا جو دہشت گرد تنظیموں کے لیے کام کررہے تھے،نے میری ذہن سازی کی اور مجھے کوئٹہ میں بلوچ یک جہتی کمیٹی کے احتجاجی دھرنے میں شرکت کے لیے آمادہ کیا اور کہا کہ مجھے پہاڑوں پر اچھی زندگی ملے گی۔لیکن حالات اس کے بالکل برعکس تھے،وہاں میں دیکھا کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو گمراہ کرکے انہیں پنجابیوں اور نہتے لوگوں کو مارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔مجھے احساس ہوا کہ میں نے غلط راستے کا انتخاب کرلیا ہے میں وہاں سے بھاگ آیا۔طلعت عزیز نے بتایا کہ پہاڑوں پر ایسے نوجوان بھی موجود ہیں جن کی تصاویر میں نے بلوچ یک جہتی کمیٹی کے احتجاجی دھرنوں میں دیکھی تھیں جنہیں لاپتہ افرا دظاہر کیا گیا ہے۔میں بلوچ نوجوانوں کو کہتا ہوں کہ وہ ملک دشمن عناصر کی باتوں میں نہ آئیں کیونکہ یہ لوگ ان کا مستقبل خراب کررہے ہیں۔میں ایک پڑھا لکھا نوجوان ہوں لیکن دہشت گردوں کی وجہ سے اپنا مستقبل گنوا بیٹھا ہوں۔اس دہشت گردانہ کاروائی میں ایک 16سالہ لڑکا بھی شامل تھا جس نے دوران تفتیش بتایا کہ ان کاروائیوں میں بچوں کو بھی اسلحے کی ترسیل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔دہشت گرد تنظیمیں ایسے چھوٹے بچوں کو چند پیسوں کالالچ دے کر اپنے ساتھ شامل کرتی ہیں جن کے مالی حالات اچھے نہیں ہوتے اور پھر ان معصوم بچوں کے ہاتھوں ڈبے اور پیکٹ (جن میں بم ہوتے ہیں)پکڑا کر دوسرے جگہ پہنچانے کا کہا جاتا ہے اور اکثر بچے ان کو کھولنے کی کوشش میں اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں،جس طرح دہشت گردوں نے خاران میں ایری گیشن کالونی کے رہائشی ایک گیارہ سالہ معصوم قدرت اللہ کوایک ڈبہ(جس میں بم تھا) دوسری جگہ پہنچانے کے لیے دیا تھا جسے قدرت اللہ نے گھر جاکر کھولنے کی کوشش کی اور بم پھٹنے کی وجہ سے قدرت اللہ موقع پرشہید ہوگیاتھا۔اسی طرح محمد انس جوکہ پنجگور کا رہائشی تھا اورکراچی میں قائد اعظم یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا،چھٹیوں پر گھر آیاہوا تھا کو دہشت گردوں نے برین واشنگ کے ذریعے ورغلاکر پولنگ اسٹیشن پر گرینڈ پھینکنے پر مجبور کیا جواس کے ہاتھ میں پھٹ گیا اور محمدانس ہاتھ کی انگلیاں گنوا بیٹھا۔بلوچ یک جہتی کمیٹی اور اس کی نام نہاد لیڈر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ،دہشت گرد تنظیموں کی پراکسی ہے، جس کی اصلیت یہ ہے کہ اس نے ہمیشہ قاتلوں،مجرموں اور مفروروں کو لاپتہ افراد قرار دے کرریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرکے بلوچ عوام کو گمراہ کیا ہے۔یاد رہے کہ بلوچستان میں ’’لاپتہ افراد‘‘کی حقیقت محض کے ایک ڈرامے کے سواء￿  کچھ نہیں،اگریہ حقیقت ہے تو پھر ماہ رنگ بلوچ سپریم کورٹ آپ پاکستان کی جانب سے ’’لاپتہ افراد‘‘کے حوالے سے بننے والے کمیشن کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار ی کیوں ہے؟۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں کوریاستی ناانصافیوں کی جھوٹی کہانیاں سناکر دہشت گردی کی طرف راغب کررہی ہے۔جس کا ثبوت گذشتہ دنوں ضلع کیچ میں سیکورٹی فورسز کے آپریشن میں ہلاک ہونے والے ایک دہشت گرد نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی تصویر والی شرٹ پہن رکھی تھی۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اس انداز میں برین واشنگ کی ہے کہ وہ اپنی ہی قوم کی نسل کشی کو جہاد سمجھ رہے ہیں۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، دشمن ممالک کی ایجنٹ ہے جس کوریاست پاکستان کانام بدنام کرنے، بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کے خلاف سازشیں کرنے،بدامنی،انتشار کو پھیلانے اور نوجوانوں کو ریاست کا باغی بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے،اس کام کے لیے اس کو بھاری ڈالرز دئیے جاتے ہیں۔چند ماہ قبل ماہ رنگ بلوچ نے ناروے کی شہر اوسلومیں ایک کانفرنس میں شرکت کی اور عوض میں ایک ملین ڈالر زصول کیے تھے جس میں 2.5لاکھ ڈالرز بلوچ یک جہتی کمیٹی کے ذریعے نوجوانوں اور خواتین کو ریاست کے خلاف گمراہ کرنے کے لیے استعمال کیے گئے۔ماہ رنگ بلوچ نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے بلوچ قوم کو استعمال کیا،اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے خونی سیاست کی۔انسانی حقوق کی علمبردار ہونے کا دعویٰ کرنے والی اس بلوچ قوم کی قاتلہ نے آج تک کسی مظلوم کے لیے ہمدردی کا ایک لفظ تک نہیں بولا،مگر دہشت گردوں،قاتلوں کی حمایت میں احتجاج کیے،دھرنے دئیے ہیں۔گذشتہ دنوں مند ماہیر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دلیپ شکاری نامی ایک مفرور،قاتل،بھتہ خوردہشت گرد، جوکہ کالعدم تنظیم بی ایل ایف مند کا سربراہ ہے کے گھر کو اپنی تحویل میں لیا توبلوچ یک جہتی کمیٹی اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اس دہشت گرد کے حق میں احتجاج کرنے لگے اور ریاستی اداروں کے خلاف منفی پراپیگنڈا شروع کیا گیا۔کیا ایسے مجرم کی حمایت میں احتجاج کرنا درست ہے؟کیا ایسے شخص کے لیے آواز اٹھانا مناسب ہے جس کے جرائم سے سب واقف ہوں؟ ہرگز نہیں مجرم کا ساتھ دینا بھی جرم ہے ایک دہشت گرد کے لیے عوام کے جان ومال کو نقصان پہنچانا،سڑکیں بند کرکے مسافروں کے لیے بالخصوص مریضوں کے لیے مشکلات پیدا کرنا،تاجروں کا معاشی قتل کرنا بھی دہشت گردی ہے۔راقم الحروف اپنے سابقہ متعدد کالموں میں بی وائی سی اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی حقیقت اور اصلیت کو بیان کرچکا ہے۔بی ایل اے کے چھوڑنے والے طلعت عزیز نے بتایا کہ دہشت گردو تنظیموں کا مقصد صرف بلوچوں کو گمراہ کرنا ہے،میں اتنا گمراہ ہوا کہ اپنے اہل خانہ کے بارے میں بھی نہ سوچا۔مجھے قائل کیا گیا کہ بلوچستان میں بلوچ قوم کے ساتھ بڑی زیادتی ہورہی ہے لہذا آزادی کے لیے ہتھیار اٹھاؤ،مسنگ پرسن اور آزادی کا ڈھونگ رچاکر عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے۔بلوچ یک جہتی کمیٹی کے احتجاج اور دھرنوں میں نوجوانوں کی ذہن سازی کر کے انہیں پہاڑوں میں موجود دہشت گردی کے کیمپوں میں بھیجا جاتا ہے۔

مزیدخبریں