سب نے دھند کو دیکھا ہو گا مگر سموگ کو کبھی نہیں اور نہ ہی دیکھنے کی خواہش ہو گی لیکن سموگ کے بارے میں اب سب نے سن رکھا ہے۔ کہا جاتا ہے سموگ وہاں ڈھیر ے ڈالتی ہے جہاں انڈسٹری کارخانے اینٹ بنانے والے بھٹے دھواں دینے والی گاڑیاں ،ٹائرو کو جلا کر تیل نکالنے والی فیکٹریاں ، گھروں میں کوئلے جلانے والی انکھٹیاں ،لکڑی سے جلنے والے تندور ہوں جہاں گھاس پھوس ڈھیروں کو ختم کرنے کیلیے آگ لگائی جاتی ہو ،جہاں درخت کاٹنے جاتے ہوں۔ سرسبز کھیتوں میں سوسائٹی بنائی جاتی ہوں۔انکی وجہ سے یہ سموگ جنم لیتی ہے۔ سموگ سردیوں کے موسم میں دھند سے مل کر کام دکھانا شروع کرتی ہے۔ یہ ایٹم بم کی طرح خطرناک ہے۔سموگ انسانی ، حیوانی چرند پرند اور درختوں کی زندگیوں کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ یہ ایسے خطرناک ہے جیسے ایٹم بم کے گرانے سے ہر چیز فنا ہو جاتی ہے پھر اس علاقے میں زندگی کا نشان مٹ جاتا ہے۔ سموگ :میں فیکٹری کارخانوں سے نکلنے والے زہریلے مواد فضا میں شامل ہو کر ہر جاندار کو نہ صرف نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ جان سے مار دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے اس سموک کی تباہی کی کہانی لندن سے 5 دسمبر 1952 میں اس وقت شروع ہوئی جب لندن کے رہائشی لوگ ایک صبح اٹھے تو لندن شہر گہرے سیاہ دھوئیں میں ڈوب چکا تھا۔حد نظر صفر ہو چکی تھی۔ ٹرین ڈرائیور پٹڑی نہیں دیکھ پا رہے تھے پائلٹس کو رن وے نظر نہیں آ رہا تھا۔ پورا شہر سموک میں ڈوب چکا تھا۔شام کے وقت پتہ چلا یہ دھند نہیں یہ سموک ہے۔ یہ گاڑھا سیاہ قسم کا دھواں لگ رہا تھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے اگلے دن چار ہزار لوگوں کی جان لے گیا۔ لوگ کھانس کھانس کر دم توڑنے لگے۔ لندن کی سماجی زندگی رک گئی ٹریفک بند ہو گئی' ٹرینیں معطل ہو گئیں' فلائیٹس منسوخ ہو گئیں' دفتروں اور سکولوں میں چھٹی کر دی گئی' شاپنگ سنٹرز بند ہو گئے اور لوگوں نے گھروں سے باہر نکلنا ترک کر دیا۔ سموگ سے قبرستان بھر نے لگے اور ہسپتالوں میں مردے اور بیمار دونوں یکساں بیڈ پر تھے یہ سموگ پانچ دن جاری رہا قدرت انسانوں پر ترس کرتی ہے اور دسمبر کی رات بارش شروع ہو جاتی ہے اور فضا آہستہ آہستہ دھل کر صاف ہوگئی لیکن اموات کا سلسلہ پھر بھی جاری رہا۔ سموگ کی وجہ سے دسمبر کے آخر تک لندن کے بارہ ہزار لوگ انتقال کر چکے تھے جبکہ ڈیڑھ لاکھ لوگ دمے آشوب چشم' ٹی بی اور نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو چکے ھے۔ اس پر ماحولیات کے ماہرین نے تحقیقات شروع کر دی پتہ چلا 5 سے 9 دسمبر کے دوران لندن کی فضا میں روزانہ ہزار ٹن سموک پارٹیکلز پیدا ہوتے رہے' ان میں ایک سو چالیس ٹن ہائیڈرو کلورک ایسڈ' چودہ ٹن فلورین کمپانڈ اور تین سو ستر ٹن سلفر ڈائی آکسائیڈ فضا میں شامل تھے یہ تمام مادے صحت کیلئے انتہائی خطرناک تھے' ماہرین نے سوچنا شروع کیا ''یہ تمام پارٹیکلز آئے کہاں سے '' پتہ چلا یہ ساڑھے سات سو سال کی انسانی غلطیوں کا نتیجہ ہے اس عرصے میں انسانوں نے قدرت کے نظام کو برباد کیا ' لہذا یہ سلسلہ 1200 میں شروع ہوا ساڑھے سات سو برس میں لندن کی آبادی میں دس گناہ اضافہ ہو چکا تھا۔ جنگل کٹ چکے تھے' ندیاں اور جھیلیں ختم ہوگئیں' دیہات شہر میں بدل چکے تھے ' کھیت کھلیانوں کی جگہ ہائوسنگ سوسائٹیاں بن گئیں تھیں صنعتی انقلاب آیا' شہر میں ہزاروں فیکٹریاں لگ گئیں' بجلی ایجاد ہوئی' کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ لگ گئے' ٹرین سروس شروع ہوئی' ٹرام آئی' گاڑیاں آئیں' تعمیرات شروع ہوئیں' دوسری جنگ عظیم نے بھی ایٹمی دھواں اڑایا اور آخر میں عام لوگ بھی آلودگی پھیلانے لگے چنانچہ لندن کی فضا آلودہ ہوتی گئی' جس سے ہوا میں آکسیجن کم ہو گئی' یہ سلسلہ چلتے چلتے 1952 تک پہنچ گیا' سردی شروع ہوئی' لوگوں نے اپنی انگیٹھیوں میں کوئلہ جلایا جس سے 'لاکھوں ٹن دھواں پیدا ہوا' یہ دھواں ساڑھے سات سو سال کی آلودگیوں میں ''مکس ہوتا رہا دسمبر کی دھند میں اب یہ شامل ہو چکا تھا اور سیاہ گیس میں تبدیل ہو گیا اور یہ گیس پانچ دن شہر کے اندر موت بن کر گھومتی رہی' ماہرین نے اس دھند کو ''سموگ'' کا نام دے دیا اور لندن کے اس ''سانحے کو گریٹ سموگ آف لندن'' قرار دیا گیا تھا۔ یوں ماحولیات کے ماہرین نے سموگ کی تشخیص کر لی' اب علاج کی باری تھی' علاج کی ذمہ داری کنزرویٹو پارٹی کے ایم پی سر گیرالڈ ڈیوڈ نے لی'یہ بزنس مین اور کارخانے دار تھا ' یہ1950 میں سیاست میں آئے ' یہ گریٹ سموگ آف لندن کے دنوں میں ہائوس آف کامنز کے تازہ تازہ رکن بنے تھے' یہ اٹھے اور لندن کی فضا کو صاف کرنے کا پلان بنانا شروع کر دیا یہ ماہرین کے ساتھ مل کر چار سالہ منصوبہ بندی کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے 1956 میں ''کلین ائیر ایکٹ'' بنا لیا'
یہ ایکٹ ہائوس آف کامنز میں پیش ہوا اور ایوان نے 5 جولائی 1956کو اس کی منظوری دے دی' یہ ایکٹ چھ بنیادی اصلاحات پر مشتمل تھا'حکومت نے شہر کے اندر کوئلے کے استعمال پر پابندی لگا دی' عوام کو ''فائر پلیس'' کیلئے متبادل ذرائع فراہم کرنے کا اعلان کر دیا گیا' حکومت نے ایک سال میں یہ ذرائع فراہم کر دیئے' ماڈرن ہیٹنگ سسٹم اسی ایکٹ کی پیداوار تھا' سردیوں میں بجلی بھی سستی کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ لوگ بجلی کے ذریعے گھر گرم کر لیں' حکومت نے شہر کے اندر فیکٹریاں بند کر دیں' مالکان کو شہر سے دور مفت جگہ بھی فراہم کی گئی' ٹیکس میں گنجائش بھی اور فیکٹریاں شفٹ کرنے کیلئے قرضے بھی دیئے گئے' بجلی کے تمام پلانٹس دو برسوں میں لندن سے دور جنگلوں میں منتقل کر دیئے گئے' لندن اور لندن کے اطراف میں درخت کاٹنا' زرعی زمینوں کے سٹیٹس میں تبدیلی اور گرین ایریاز کے خاتمے پر پابندی لگا دی گئی' ملکہ تک کو درخت کاٹنے سے قبل تحریری اجازت کا پابند بنا دیا گیا اور پبلک ٹرانسپورٹ میں اضافے' پرائیویٹ گاڑیوں کی حوصلہ شکنی اور پٹرول کے معیار کو بلند کرنے کا فیصلہ کیا گیا' ہاؤس آف کامنز نے ان اصلاحات کی منظوری دی'حکومت نے کام شروع کیا اور ایکٹ کی منظوری کے صرف چار سال بعد 1960 میں لندن کی فضا مکمل طور پر ''سموگ فری'' ہو گئی' یہ ایکٹ اس قدر مکمل اور سخت تھا کہ سرگیرالڈ ڈیوڈ کو خود اس کا نقصان اٹھانا پڑا' ان کی اپنی فیکٹریاں بھی لندن سے باہر منتقل ہوئیں۔ہم اب گریٹ سموگ آف لندن سے گریٹ سموگ آف لاہور کی طرف آتے ہیں' پنجاب پچھلے تین برسوں سے شدید سموگ کا شکار چلا آ رہا ہے' نومبر کے مہینے میں لاہور' بہاولنگر' پاکپتن' فیصل آباد ، ملتان اور ٹوبہ ٹیک سنگھ زہریلی دھند میں گم ہو جاتے ہیں'پنجاب اس بار بھی سموگ میں دفن ہے' ہماری فضا میں اگر اسی مائیکرو گرام زہریلے مادے ہوں تو ہمارے پھیپھڑے انہیں برداشت کر جاتے ہیں لیکن لاہور اور اس کے مضافات میں اس وقت آلودگی کی شرح دوسو مائیکرو گرام کیوبک میٹر ہے' ہم اگر فضا کا ٹیسٹ کریں تو ہمیں اس میں کاربن مانو آکسائیڈ' سلفر اور نائیٹروجن کی بھاری مقدار ملے گی' یہ تمام مادے زہر ہیں' کہا جاتا ہے لاہور کی فضا میں اس وقت تین سو سے چار سو فٹ تک آکسیجن کی شدید کمی بھی ہے' کہا جاتا ہے بھارت ہم سے بھی بری صورتحال کا شکار ہے' بھارت میں 2012 میں سموگ کی وجہ سے پندرہ لاکھ لوگ مر گئے تھے ' لاہور میں بھی اس سال چار لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں حکومت پنجاب نے تعلیمی ادارے اس موقع پر بند کر کے بچوں کی جانیں بچائی۔ ایسا کرنا اچھا قدم تھا۔اگر پنجاب حکومت برطانیہ کے بنائے گئے کلین ایئر ایکٹ لندن پر ہی عمل کرلے تو لاہور سمیت باقی شہر بھی سموگ فری بنائے جا سکتے ہیں۔انہیں کوئی نئی ریسرچ کرنے کی ضرورت نہیں کہ سموگ آئی کیسے؟ اور ہم اس کے سدباب کیلیے کیا کریں۔ لندن پلان پر ہی عمل کر لیں تو سموگ سے نجات مل سکتی ہے۔حکومت نے بارش کیلیے اجتماعی دعا کی اپیل کی گئی ہے،۔کیا ہی اچھا ہو اجتماعی دعا کی ایک اپیل یہ بھی کر دی جائے کہ کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ کرنا جھوٹ بولنا، انسان انسان کو دھوکا دینا ، چیٹ کرنا،سڑکوں کو بلاک کرنابند کردیں شائد یہ دعائیں بھی قبول ہو جائیں۔
سموگ : سماجی مسئلہ ایٹم بم بن گیا!!
Nov 18, 2024