بند پالیسی اور سموگ!!

Nov 18, 2024

کامران نسیم بٹالوی

کیا اپ نے کبھی پریشانی کا تہوار سنا ہے تو پریشان نہ ہوں کیونکہ میں اور اپ اس خطہ زمین کے باسی ہیں جہاں دیگر دنیا کی مانند خوشیوں کے تہوار تو مستقل ہوتے ہیں مگر اس کے برعکس پریشانی کے تہوار بھی بڑے دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں اور ان کا انتظار بھی کیا جاتا ہے لیکن یہ تہوار حکومتوں کی جانب سے ہوتے ہیں اپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ یہ کیا بونگی ماری جا رہی ہے تو جناب جب اپ بھی سموگ کا لفظ سنیں گے تو اپ بھی میری طرح اس بات پر قائل ہو جائیں گے کہ کئی دنوں ہفتوں اور مہینوں پر مشتمل اور مستقل وہ پریشانی جس کو حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندی کی بنا پر جھیلنا ہمیں پڑتا ہے اور ہر سال شیر آیا شیر آیا کا شور ڈال کر ٹائم پاس کیا جاتا ہے اور وقت نکلنے پر بھلا دیا جاتا ہے اور اگلے سال اسی موسم میں اور انہی ایام میں پھر وہی رولا رپااور عوام کے لیے پریشانی کا تہوار کا اغاز مطلب نظام زندگی بند کر کے اس عوام الناس کا جینا دو بھر کر دیا جاتا ہے جو پہلے ہی شدید معاشی دباؤ کا شکار ہوتے ہوئے مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ سموگ ایک مستقل روک کیوں بن چکا ہے ہماری زندگیوں میں ہی گرین سمارٹ اور مستقل لاک ڈاؤن کیوں لکھ دیے گئے ہیں اور کیا ایسی حکمتی عملی سموگ کے خاتمے کا بنیادی حل ہے اور اس طرح کے بہت سے سوالات ہر شہری کے ذہن میں ہیں اور بہت سے تو اسکے جوابات جانتے بھی ہیں مگر حکومتی اور ریاستی پالیسی کے آگے سر تسلیم خم کرنے میں ہی نجات ہے ورنہ آپ جرم کے مرتکب ٹھہریں گے لیکن وہ وائٹ کالر جرائم جن کی بنیاد پر ہمیشہ کی طرح شہریوں کو ہی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اور جسکا ذمہ دار حکمران طبقہ ہوتا ہے ان کو سزائیں کون دے گا؟ دو کروڑ کی آبادی کے لگ بھگ شہر لاہور پر ہر سال ماہ اکتوبر اور نومبر میں سموگ کے راج پر حکومتوں کی جانب سے سموگ کی بڑی اور اہم وجہ فصلوں کی باقیات کو جلانے کا مستقل بیانیہ ہے لیکن اس بار پورے پنجاب میں حتی کہ جڑواں شہر راولپنڈی اور اسلام آباد میں بھی سموگ کے اس گھسے پٹے بیانیے کی نفی کر رہا ہے کیونکہ وہاں پر کون سی فصلیں ہیں جن کی باقیاث سے پوٹھوہار اور پہاڑی علاقے آلودگی کی زد میں آگئے ہیں یہاں تک کہ صوبہ کے پی کے کا دارالحکومت پشاور بھی سموک کا شکار ہو چکا ہے جس سے پتہ چل رہا ہے کہ سموگ قومی مسئلہ بن چکا ہے دوسرا اسکے بنیادی محرکات صرف فصلوں کی باقیات کا جلانا نہیں ہے بلکہ دیگر بہت سے اہم اسباب ہیں جن پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ماحولیاتی آلودگی کی قومی سطح تک بگڑتی ہوئی صورتحال پاکستانیوں کو تنبیہ کر رہی ہے کہ ہمیں ماحول کے ساتھ کھلواڑ کرنا بند کرنا ہوگا ورنہ آلودہ ماحول نے خود سبق سکھانا شروع کر دیا ہے جس کے تحت پنجاب بھر کے لاکھوں شہری سموگ کے اثرات کی بدولت بہت سی بیماریوں کا شکار ہو کر ہسپتالوں کا رخ کر چکے ہیں۔
 کسی بھی ملک میں درپیش کسی بھی قسم کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک عمومی فارمولا دستیاب ہوتا ہے جس کے تحت جہاں سویک یعنی شہری ذمہ داری ہوتی ہے وہاں اس سے بڑھ کر ریاستی ذمہ داری اور فرائض مرکزی کردار ادا کرتے ہیں اور جب ریاست یا حکومت معاملہ کی سنگینی کے تمام پہلوؤں کو شناخت کرتے ہوئے شہریوں کو احتیاطی پیرامیٹر کے تحت لے کر چلیں گے تو ہی ہر مسئلے کا خاتمہ ہوگا ورنہ بے ڈگر چلتے ہوئے سموگ کا جوں کا تو شکار رہیں گے موجودہ صوبائی حکومت کے نزدیک بھارت کی جانب سے فصلوں کی باقیات کا جلانا اور ہواؤں کے ذریعے آلودگی کا پاکستان میں آنا ہی سموگ کی بڑی وجہ ہے لیکن اس کے برعکس وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے پنجاب میں اپنی حکومت کے اس بیانیہ کی نفی کر دی جس کے تحت صرف سموگ کا 20 فیصد ہی فصلوں کی باقیات سے پیدا ہوتا ہے جبکہ باقی 80 فیصد ٹرانسپورٹ اور توانائی حاصل کرنے کے لیے مختلف قسم کے ایندھن کا استعمال ہے جس پر حکومت پنجاب کو اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
 خواجہ اصف کے بیان سے ہٹ کر دیکھا جائے تو توانائی انسان کی بنیادی ترجیح رہی ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے لکڑی کوئلہ پیٹرول ڈیزل مٹی کا تیل گیس اور یہاں تک کہ استعمال شدہ ٹائر کے ذریعے کارخانے ملیں فیکٹریاں اور گاڑیاں چلائی جاتی ہیں یہی کام توانائی کے وسائل کو آلودگی کے مسائل میں بدل دیتا ہے ماضی قریب میں لندن بیجنگ لاس اینجلس اور میکسیکو" دی سٹی اف سموگذ" کا نام دیا گیا تھا اور ان کے شہریوں کو لاہوریوں کی ہی طرح سموگ نے گھیر رکھا تھا اور پھر ان تمام مذکورہ بڑے شہروں اور ریاستوں نے انرجی کے حصول کے لیے معیارات مقرر کیے اور ٹیکنالوجی کو بھرپور استعمال کیا اور یہی وجہ ہے کہ آج ان تمام شہروں میں دوگنا آبادی اور انڈسٹری کے باوجود بھی سموگ کا دور دور تک نام و نشان نہیں بچا ہے۔
 ماضی کی 2018 میں بزدار حکومت کو ورلڈ بینک نے آلودگی سے نمٹنے کے لیے فنڈ عطیہ کیا تاکہ آلودگی کو قابو کرنے کے لیے لاہور شہر میں 30 ایئر کوالٹی مانیٹر نصب کیے جا سکیں لیکن افسوس ہماری بدعنوانی وہ جو سر چڑھ کر بولے صرف چار مونیٹر نصب کیے گئے جبکہ بقیہ فنڈ جیبوں کی نذر ہو گیا دوسرا المیہ یہ کہ ہم لک بزی ڈو نتھنگ کے ماٹو پر عمل پیرا ہیں کانفرنس سے اور ورکشاپ میں کروا کر اپنے اپ کو بڑا متحرک رکھتے ہیں جبکہ مسئلہ وہیں کھڑا رہتا ہے ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی صرف گرین لفظ کے استعمال سے نہیں اپائے گی بلکہ اس کے لیے ہمیں زیر کاشت زمین ہڑپ کرنے والے ریل اسٹیٹ مافیا کو بھی نکیل ڈالنی ہوگی کہ اس کے ساتھ ساتھ فضا میں خارج ہونے والے آلودہ دھوئیں کو ری سائیکل کر کے توانائی کے لیے استعمال کرنا ہوگا جس طرح چین جاپان اور جرمنی میں یہ سب چل رہا ہے۔ آلودگی کا بڑا موجب ٹرانسپورٹ کو الیکٹرک کرنا ہوگا جس پر پوری دنیا میں بڑی تیزی سے کام جاری ہے۔

مزیدخبریں